اسلام آباد اس وقت ہلکے درجے کے بخار میں مبتلا ہے۔ کمزوری ہے، تھکاوٹ ہے، جسم دکھ رہا ہے لیکن درجہ حرارت بہت زیادہ نہیں۔ اب تک۔
یہ بہت ہی تھکا دینے والا عمل ہے۔
سب کے لئے۔ حکومت اپنی ہی خراب کارکردگی کے بوجھ تلے دب رہی ہے باوجود اس کے کہ خراب کارکردگی پر ہونے والی تنقید کو دبانے کے لئے مخالفین پر الزامات کا شور بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ ہاتھ ہلانے سے زیادہ زبان ہلانا آسان سمجھتی ہے۔ اس کا چلتے رہنا ہی اس کے خیال میں اس کی جیت ہے۔ یہی پیمانہ ہے۔
اپوزیشن فیصلہ لینے میں اپنے تذبذب کے بوجھ تلے دب رہی ہے باوجود اس کے کہ اپنے تذبذب اور بدنظمی کو چھپانے کے لئے اس نے حکومت کو دھمکیاں تیز کر دی ہیں۔ اس کو ڈیل کے مبہم اشارے دینا واقعتاً ڈرامہ بازی ختم کر کے ایک ڈیل کر لینے سے زیادہ آسان دکھائی دیتا ہے۔ جیتنے کے لئے اسے اپنا بیانیہ ترک کرنا ہوگا۔ یہی پہمانہ ہے۔
ریڈ زون میں مخالفین ایک دوسرے کے آمنے سامنے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بس کھڑے ہیں۔ چاقو باہر ہیں، تلواریں بے نیام ہیں، لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر پہلا وار کرنے کو تیار نہیں۔ سلو موشن میں جنگی ناچ جاری ہے۔ جنگ کے اعلانات سے پہاڑ گونج رہے ہیں، گھوڑے ہنہنا رہے ہیں لیکن طبلِ جنگ نہیں بجایا جا رہا۔ گھوڑوں کو ایڑ اب تک نہیں لگائی گئی ہے۔
اور یہ شاید ہوگا بھی نہیں۔ فی الحال نہیں۔ یہ بد ہئیت foreplay پارلیمان تک بھی پہنچ چکا ہے اور سیاسی کوئلوں سے چنگاریاں نکال رہا ہے جو اب سرخی مائل ہو چکے ہیں۔ آگ لگ سکتی ہے۔ لیکن ابھی لگی نہیں۔ شاید ایندھن ہی پورا نہیں ہے۔ آپ کو حرارت محسوس ہو رہی ہے اور شعلے کا احساس بھی ہے۔ لیکن یہ جسم کو جھلسانے جتنا گرم نہیں۔ اب تک۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ جلتا ہوا تناؤ کب تک جاری رہ کر بالآخر ٹوٹ کر غیر متوقع نتائج کی بوچھاڑ کرے گا۔ حکومت کے لئے یہ تکلیف دہ حد تک مشکل ہے کہ اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہو اور یہ کارکردگی بھی دکھا سکے۔ اپوزیشن کے لئے بھی یہ تکلیف دہ حد تک مشکل ہے کہ وہ ایک ایسی صورتحال میں جی دار قسم کی ایک جنگ لڑ سکے جو کہ خود اس کی حکمتِ عملی سے میل نہیں کھاتی۔
اس بے عملی اور حکمتِ عملی کی دوئیوں کی خاموشی کے دوران سرگوشیاں گونج رہی ہیں – طاقت کے ایوانوں میں اعتماد کے فقدان اور اس بد اعتمادی کو مزید بڑھانے میں کردار ادا کرتی غیر محتاط گفتگو کی سرگوشیاں۔ ریڈ زون کے اندر ہوئی نجی محفلوں میں اہم لوگوں کے بارے میں غیر محتاط گفتگو کی گئی ہے۔ اور یہ باتیں باہر نکل گئی ہیں۔ ان محفلوں میں ان آپشنز پر عملدرآمد کی باتیں بھی باآوازِ بلند کی گئی ہیں جن پر عملدرآمد نہ ہی کرنا بہتر ہوتا ہے۔ ایسے الفاظ عمل میں تبدیل نہ بھی ہوں، ان کی اپنی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ غیر محتاط گفتگو سفینے ڈبوتی ہے۔ آج بھی اس کہاوت کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں۔
یہ حیران کن ہے کہ ذمہ دار عہدوں پر موجود ذمہ دار افراد کی جانب سے ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ایک ایسے موقع پر کی جائے جب داؤ پر اتنا کچھ لگا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسی غلطیاں بار بار دیکھنے میں آئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والی شکست سے اب تک سنبھل نہ پانے والی حکومت شاید جانتی ہے کہ پنجاب بلدیاتی انتخابات اس سے بھی بڑا جال ثابت ہوں گے۔ اور یہ صرف ایک جال ہے۔ معاشی صورتحال اس سال کے آخر تک ٹھیک ہونے والی نہیں۔ وہ بھی اگر ہوئی تو۔ سڑکوں پر اپوزیشن کا دباؤ تقریباً ایک ماہ کے اندر بڑھنا شروع ہو جائے گا اور میڈیا میں اسی پر بات چیت شروع ہو جائے گی۔ اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں سپریم کورٹ میں ایک نیا چیف جسٹس آنے والا ہے۔ ریڈ زون میں معمولی سے واقعات کبھی کبھی بہت غیر معمولی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ اپنے گھمبیر ترین دور میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ پہلی حوصلہ افزا خبر ابھی بھی کئی ماہ کے فاصلے پر ہے۔
ایسے ہی گھپ اندھیروں میں – جب رات سب سے گہری ہوتی ہے اور سایوں سے بھی خوف آنے لگتا ہے – ایسی چیزیں جنہیں نہیں ہونا چاہیے، کسی صورت نہیں ہونا چاہیے، اور نہیں ہو سکتیں – ہو جاتی ہیں۔ سرنگ میں داخل ہوتی ایک ٹرین کی طرح، پاکستان کی سیاست ایک اندھیر نگری میں داخل ہونے جا رہی ہے اور اس سرنگ کے دوسرے سرے سے اس کو کچھ عرصے بعد نکلنا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وقت کی یہ پٹڑی دو ماہ تک جاری رہے گی، کچھ کے نزدیک اس کا عرصہ تین ماہ ہے، لیکن سب کا اتفاق ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ بے نیام تلواریں نرم گوشت میں پیوست ہوں گی یا واپس اپنے ٹھنڈی نیاموں میں جائیں گی۔
اس دوران سب لوگ اپنے اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزرا پریس کانفرنسز میں اپنی حکومت کی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے قائل نہ کرنے والے دلائل دینے میں مصروف ہیں جب کہ اپوزیشن فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کی خفت مٹانے کے لئے پارلیمان میں چیخ چلا رہی ہے۔ عوام کو دکھانے کے لئے اپوزیشن لیڈر کے خلاف نئے کیسز بنائے جائیں گے اور عوام کو دکھانے کے لئے ہی حکومت کے خلاف ریلیاں نکالی جائیں گی۔ یہ میڈیا کو ایندھن دیں گی اور عوام کو تسلی لیکن کچھ بھی ایسا نہیں ہوگا جس سے یہ نظام گرایا جا سکے۔
یہ بڑا عجیب وقت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آگے کیا کچھ ہو سکتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ سب ہوگا یا نہیں۔ سب اپنی اپنی آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ان پر عملدرآمد کی پوزیشن میں نہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دارالحکومت رات کے گھمبیر ترین دور میں داخل ہو رہا ہے، واضح تذبذب کے سائے ریڈ زون کے قلعوں کی دیواروں پر چھائے ہوئے ہیں۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔