'ن لیگ جس طرح ناکام ہوئی، وہ وزارت اعلیٰ کے قابل ہی نہیں تھی'

'ن لیگ جس طرح ناکام ہوئی، وہ وزارت اعلیٰ کے قابل ہی نہیں تھی'
اعتماد کے ووٹ کے وقت پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک سے باہر تھے۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز بھی باہر تھیں۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی (ن) لیگ سے اپنے سیاسی مستقبل کی کوئی گارنٹی مانگتے تھے جو دینے کے لئے (ن) لیگ کی لیڈرشپ موجود نہیں تھی۔ (ن) لیگ جس طرح ناکام ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ (ن) لیگ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے قابل ہی نہیں تھی۔ یہ کہنا ہے صحافی عامر میر کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے عامر میر نے کہا کہ پرویزالہٰی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ 11 جنوری کو عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ آج آپ اعتماد کا ووٹ لیں، ورنہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی استعفے دے دیں گے۔ پرویز الہیٰ نے کہا کہ آپ کے کچھ بندے ساتھ نہیں دے رہے جس کے بعد عمران خان نے ان اراکین سے فون پر رابطہ کیا۔ پھر پولیس ان اراکین کو لینے کے لئے گئی۔

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ تذبذب کا شکار تھی لیکن پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب کے سیاسی استحکام کے لیے ایک پسندیدہ وزیر اعلیٰ لے کر آتے ہیں مگر یہ مشورہ 'دینے والے' اور (ن) لیگ دونوں ناکام ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ ملک احمد خان وزیر اعلیٰ بنیں مگر (ن) لیگ کے اندر مخالفت تھی۔ پرویز الہیٰ کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پنجاب میں سیاسی استحکام کا ٹاسک ملا تھا۔ پرویزالہی نے اب جو بھی کیا، وہ انہی کے کہنے پہ کیا ہو گا۔

عامر میر نے کہا کہ جسٹس بندیال صاحب وفاقی حکومت سے اپنے مرضی کے تین جج لینے کے باوجود ناراض ہیں۔ ان کو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی پر حکومت سے ناراضگی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ اٹارنی جنرل کو بدلوا کر ان کی جگہ جسٹس اعجاز الحسن کے کسی رشتہ دار شہریار نامی بندے کو اٹارنی جنرل لگایا جائے۔ سپریم کورٹ سے اس معاملے میں انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔ 90 دن کے بعد الیکشن ہوتے مشکل نظر آ رہے ہیں کیونکہ آگے رمضان اورعید آ رہی ہے۔ یہ باتیں الیکشن کمیشن میں بھی چل رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا، عمران خان اس کو عدالتوں میں لے جائیں گے۔ جج سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بنانا اسمبلی کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا استحقاق ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عدلیہ وسیع تر قومی مفاد میں فیصلہ کرتی ہے یا اپنی پرانی روش کو جاری رکھتی ہے۔

عامیر میر نے کہا کہ سیٹھی صاحب نے ٹویٹ کی ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ آنے والا ہے۔ عمران خان کا پلستر عدالتی پیشیوں سے بچنے کے لیے ہے۔ عمران خان کے ساتھ اب وہی ہو گا جو 2016 کے دور میں نواز شریف اور (ن) لیگ کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ سب کچھ جب عمران خان کے ساتھ ہو گا تو الیکشن میں وہی نواز شریف والی فضا بنائی جائے گی کہ وہ نااہل ہو گئے ہیں۔ نئی پارٹی کی بات جنوبی پنجاب کے لوگوں کے حوالے سے چل رہی ہے، یہ انہی سیاسی لوگوں کا گروپ ہے جو کبھی جہانگیرترین کے ساتھ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ایم کیو ایم کو اکٹھا کرنے کا سوچا ہے، ان کا بہت زور لگ رہا ہے۔ ان کو اکٹھا کرنے کا مقصد عمران خان کو دی جانے والی 14 سیٹیں واپس لینی ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کو مسئلہ ہو رہا ہے کہ وہ سیٹیں ان کو دی جائیں۔ مگر یوں لگ رہا ہے کہ 'مائنس الطاف' کے ساتھ الیکشن میں کراچی کا ٹرن آؤٹ لینا مشکل ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق اب اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کو کراچی سے ایک سیٹ بھی نہیں ملے گی۔

تنزیلہ مظہرنے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر سے آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ حمزہ شہباز سے پارٹی کے معاملات نہیں سنبھالے جا رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سارے عہدے شریف خاندان کے پاس ہیں اور وہ پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔ نگران حکومت کو بھی تحریک انصاف کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہو گا۔ پنجاب میں ایک نئی پارٹی لائی جا رہی ہے، آصف زرداری بھی اس میں شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کچھ پرانے لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس پارٹی میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے کافی لوگ نظر آئیں گے۔ اس سلسلے میں ملک ریاض بھی سرگرم ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ گورنر پابند ہیں کہ منتخب وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی کو تحلیل کریں مگر پرویز الہٰی سپریم کورٹ کے فیصلے پروزیر اعلیٰ لگے تھے، جس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن چل رہی ہے۔ گورنر کیوں اس جلدی میں ہیں کہ ایک غیر منتخب وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کر رہے ہیں۔ گورنر کو پہلے سپریم کورٹ سے پرویز الہیٰ کی اہلیت کے بارے میں رائے لے لینی چاہئیے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔