پروفیسر وارث میر، ایک عہد ساز صحافی، اور مد مقابل فکری بالشتیے

پروفیسر وارث میر، ایک عہد ساز صحافی، اور مد مقابل فکری بالشتیے
آج اگر صحافت پاکستان میں زندہ ہے تو وہ پروفیسر وارث میر جیسے بہادر اور عظیم صحافیوں کی بدولت ہے۔ لیکن کاش کہ کچھ بدنصیبوں کو ایسے سچے اور کھرے صحافیوں کی قدر ہوتی، وہ ان کےحق سچ کی مخالفت کرنے کے بجائے حقیقت پسندی پر خراج عقیدت پیش کرتے۔ اگرچہ ایسے عظیم لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ نہ صرف پنجاب اسمبلی بلکہ قومی اسمبلی سمیت باقی تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی وارث میر کی بے پناہ خدمات کے پیش نظر قراردادوں کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ پنجاب اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے پروفیسر وارث میر کی گراں قدر خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے آمرانہ ادوار میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کی اور اپنی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعے ہمیشہ کلمہ حق بلند کیا۔ گزٹ آف پاکستان برائے سال 2013 کے صفحہ نمبر 44 کے مطابق وارث میر نے ’’سچائی کے لئے لکھوں اور لوگوں کی آواز بن کر بولوں‘‘ کے مصداق ایک مقصد کے تحت پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی۔

پروفیسر وارث میر دھمکیوں، پابندیوں، شدید ترین ذہنی اذیت اور تشدد کے باوجود ظالم قوتوں کے سامنے حق سچ پر ہمیشہ ڈٹے رہے۔ اور اپنے اصولی مؤقف پر چلتے ہوئے جمہوریت اور آزادی صحافت کی جنگ لڑی۔ آپ کی تحریر کردہ کتب میں ’حریت فکر کے ’مجاہد‘، ’کیا عورت آدھی ہے؟‘، ’خوشامدی صحافت اور سیاست‘، اور ’ضمیر کے اسیر‘ شامل ہیں۔

پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں کہ ضیاالحق کے دورِ آمریت میں ملوکیت اور ملّائیت یکجان اور یک قالب ہو کر رہ گئی تھیں۔ اسلام کے نام پر ملائیت کی بزورِ شمشیر ترویج و اشاعت کے خلاف ہمارے دانشوروں کا ردعمل سیکولرازم یا کمیونزم کے نام پر اسلام فراموشی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں وارث میر نے اسلام کی حقیقی انقلابی روح کو آشکار کرتے چلے جانے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے اقبال کے طرزِ فکر و عمل کو اپنا سرچشمہ فیضان بنا کر ملائیت کو اسلام اور انسانیت کے حقیقی مفہوم سے آگہی بخشی اور ملائیت یا آمریت کا کلمہ پڑھنے کی بجائے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بیان کرنے کا فریضہ سرانجام دیا۔

پروفیسر وارث میر 17 دسمبر 1986 کے کالم بعنوان ’’نئے خیالات ہوئے کیوں کر خطرناک؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’پاکستان کا تصور پیش کرنے والے اقبالؒ اور پاکستان کی جنگ جیتنے والے محمد علی جناحؒ کے تاریخی کردار اور خدمات کی حفاظت کون کرے گا؟ اب پاکستان پر یہ وقت آن پڑا ہے کہ یا لوگ جناحؒ سے قائداعظمؒ اور اقبالؒ سے حکیم الامت کا اعزاز چھین لینا چاہتے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور قائد اعظمؒ کی جمہوریت و آئین پسندی اور اقبالؒ کی روشن خیالی کا دور نہیں ہے۔ یہ دور تو صاحبان جبہ و دستار اور اصحاب سبز و محراب کا دور ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمہیں بیرونی نفس یا اندرونی نفس کا شیطان گمراہ کررہا ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اس لئے تھا کہ مسٹر اور ملّا کی تمیز ختم کی جائے۔ ہم ایک ایسا حسین و جمیل معاشرہ پروان چڑھانا چاہتے تھے، جس میں قائد اعظمؒ کی جمہوریت پسندی ہو تو اقبالؒ کا فکر و فلسفہ بھی ہو، مسجد بھی ہو اور محراب و منبر بھی ہو، جس میں قائد اعظمؒ اور اقبالؒ کے مقام و مرتبہ کا بھی احترام ہو اور ان کے ناقدوں اور ان ناقدوں کے مریدوں کی عزت نفس بھی محفوظ ہو۔ پاکستان نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے معرضِ وجود میں آیا تھا، نفرتوں کے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے نہیں۔‘‘

پروفیسر وارث میر کو سچ لکھنے کی پاداش میں اذیت دینے کے لئے زمانہ طالب علمی میں ان کے بیٹے فیصل میر کو ایک قتل کے کیس میں بھی پھنسانے کی کوشش کی گئی۔ حامد میر بتاتے ہیں کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا جب یہ قتل ہوا۔ اس وقت میں سول لائن میں اسلامیہ کالج کے خلاف ایک میچ کھیل رہا تھا، سینکڑوں طالب علم یہ میچ دیکھ رہے تھے اس وجہ سے مجھے اس میں شامل کرنا مشکل تھا۔ لہٰذا انہوں نے میرے بھائی فیصل میر پر ایک قتل کا جھوٹا مقدمہ بنایا کیونکہ وارث میر نام نہاد شریعت بل کے خلاف لکھتا تھا۔ تب حکومت نے اس کو ایک قتل کے کیس میں شامل کیا جو سائنس کالج لاہور میں ہوا تھا۔ تب فیصل میر ہیلے کالج لاہور میں طالب علم تھا۔ فیصل میر کے اساتذہ نے پولیس کو بتایا کہ جب سائنس کالج میں قتل ہوا تو اس وقت فیصل میر تو ہیلے کالج میں کلاس لے رہا تھا لیکن پروفیسر وارث میر کی موت کے بعد فیصل میر کو اس مقدمہ میں بے گناہ قرار دیا گیا۔

فیاض الحسن چوہان جیسے لوگ پروفیسر وارث میر کو غدار سمجھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ظلمت کے ضیاؤں کی نام نہاد اور خود پسندانہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھا۔ بلاگر شوکت علی زرداری نے ایک بہت خوبصورت بات لکھی کہ فیاض الحسن چوہان جیسے لوگ پالے ہی اس لئے جاتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کسی شریف النفس انسان پر ڈھکن کھول کر گند اچھال سکیں۔ پروفیسر وارث میر پاکستان کے چند عظیم لوگوں میں سے ایک تھے اور ان کے خلاف جھوٹ بولنے والے سوائے رسوائی کے کچھ نہیں پائیں گے۔

‏پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان نے میر کو اس لئے غدار وطن قرار دیا کیونکہ بقول وزیر موصوف پروفیسر وارث میر نے 1971 کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی لیکن وزیر باتدبیر کا وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے 1971 کے فوجی آپریشن سمیت تمام آپریشنوں کی مذمت کی تھی۔ یقیناً جواب یہی ہوگا کہ وہ تو محب الوطن ہیں کیونکہ ایسے خوشامدی لوگ ہمیشہ خوشامد پسندی اور دین کے نام پر جھوٹ سننے اور حب الوطنی کے نام پر جھوٹ کہنے کے عادی ہوتے ہیں اور ان کی ایک ہی معاملہ پر کچھ لوگوں کے لئے کچھ اور رائے ہوتی ہے اور دوسروں کے بارے کچھ الگ یعنی ان کی خود کی باتوں میں ہی کھلا تضاد ہوتا ہے۔ کیونکہ چوہان ذہانت کے لوگ اس طرح کے راگ کسی کو خوش کرنے کے لئے الاپتے ہیں۔

حامد میر کے وکیل جہانگیر خان جدون نے بتایا کہ ہم نے فیاض چوہان کو قانونی نوٹس بھیجا ہے کہ وہ میر خاندان کو ایک ارب ہرجانہ ادا کریں کیوں کہ انہوں نے بطور وزیر اطلاعات یوٹیوب ویڈیو کے ذریعے جو من گھڑت الزام لگائے اور حامد میر اور ان کے والد معروف لکھاری اور صحافت کے استاد پروفیسر وارث میر کو غدار وطن قرار دیا۔ چونکہ یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں اور ان کے پروفیشن کو ڈیمج کرنے کے لئے ایسا کیا گیا۔



حالانکہ ان کی ملک اور قوم کے لئے گرانقدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے بھی یومِ پاکستان کے موقع پر ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ہلال امتیاز دیا گیا جو 23 مارچ 2012 کو ان کے بیٹے عامر میر نے وصول کیا تھا۔

حامد میر نے ہرجانے کے نوٹس میں مطالبہ کیا ہے کہ فیاض چوہان 14 روز میں اپنے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات پر معافی مانگیں اور اس معافی کی اخبارات اور چینلز پر بھی اشاعت کی جائے۔ اگر فیاض چوہان اپنی اس گری ہوئی حرکت پر معافی نہیں مانگتے تو ان کے خلاف سول اور فوجداری مقدمات دائر کیے جائیں گے۔

فیاض الحسن چوہان کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حفیظ خان کا مضمون ’’وارث میر نے ڈھاکہ ڈوبتے کیسے دیکھا۔۔۔۔؟‘‘ پڑھ لینا چاہیے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی ہمیں ترکی یا یورپ بھیجنا چاہتے تھے لیکن پروفیسر وارث میر سے مشورہ کر کے ہم نے مشرقی پاکستان جانے کی خواہش ظاہر کی جہاں آپریشن کے بعد حالات بگڑ چکے تھے اور مکتی باہنی ریاست کے خلاف برسرپیکار تھی۔ ہم مشرقی و مغربی پاکستان میں پل بننا چاہتے تھے۔ یہ اس وقت کے حالات میں ایک ایڈونچر تھا اور وارث میر پاکستان کو بچانا چاہتے تھے۔ میر نے جو وہاں دیکھا واپس آ کر لکھ ڈالا جس پر حب الوطنی کے کچھ ٹھیکیداروں نے انہیں پاکستان کا دشمن قرار دے ڈالا حالانکہ انہوں نے جو لکھا اس کے ہم بھی گواہ تھے کہ وہاں کیسا ظلم ہو رہا تھا۔ ہمیں احساس ہوا کہ ایک طرف مکتی بانی نے ظلم کیا تو دوسری طرف ہم سے بھی غلطیاں ہو چکی تھی، فوج کا کام امن امان قائم کرنا نہیں ہوتا، فوج کو دشمن پر حملہ کرنا اور گولی مارنا سکھایا جاتا ہے اور جب فوج سے اپنے ہی ملک میں آپریشن کروائے جائیں تو ناخوشگوار واقعات روکنا مشکل ہوتا ہے۔ سکوت ڈھاکہ کے کئی سال بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ہمارے ایڈونچر کو ایک مختلف زاویے سے دیکھا۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت کے ایک سابق بنگالی طالب علم محی الدین کی وساطت سے بنگالیوں کو پتا چلا کہ 1971 میں ان کی آہ و بکا مغربی پاکستان تک نہیں پہنچ رہی تھی تو جامع پنجاب کا استاد اور کچھ طلبہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ان کے دکھ بانٹنے ڈھاکہ آئے تھے اور انہوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔‘‘

لہٰذا بنگلہ دیشی حکومت نے 2013 میں پروفیسر وارث میر، فیض احمد فیض، حبیب جالب سمیت کچھ دیگر اشخاص کو ’فرینڈز آف بنگلہ دیش‘ ایوارڈ دیا۔ ان سب نے آپریشن کی مخالفت کی تھی، نہ کہ پاکستان کی، بلکہ یہ تو پاکستان کو بچانا چاہتے تھے۔

ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا سے باہر نکل کر کتابی دنیا میں کچھ جھانکیں تب جا کر کہیں پاکستان کی اصل تاریخ سمجھ آئے گی کیوں کہ سوشل میڈیا پر تو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو حامد میر کی بے باک صحافت پسند نہیں وہ ہمیشہ اس طرح کا پروپیگنڈا لے کر نہ صرف ان کی ذات بلکہ مرحوم والد کے خلاف بھی اس طرح بہتان تراشی کرتے ہیں کیونکہ ان کے اس مردِ جری صحافی فرزند نے ہمیشہ اپنے والد کی اس نصیحت پر پورا اترنے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میر تمہیں اسلام اور پاکستان کی جنگ لڑنی ہے اور ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دینا ہے۔ یہ کچھ طاقتور احمقوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہے مگر وارث میر اپنی فکری جد و جہد کے ذریعے ہمیشہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔