اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں اپنی مخلوق سے مخاطب ہوکر کہتا ہے " اے انسان یقینا ہم نے تمھیں بہترین صورت دے کر پیدا کیا۔اور بے شک ہم نے انسان کو بہترین اعتدال اور توازن میں پیدا فرمایا ہے " بے شک ایسا ہی ہے۔ہر سال مارچ کے دوسرے جمعرات کو پوری دنیا میں ورلڈ کڈنی ڈے یعنی کہ گردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں امراض گردہ اور اس کی وجوہات پر آگاہی سیمینار بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
گردوں کے افعال /کام
گردہ انسانی جسم کا ایک خاص عضو ہے جسم کو ایک توازن میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک فلٹر یعنی صفائی کا کام بھی کرتا ہے یعنی جسم سے مختلف سیال گندے مادے یا فاسدمادے جسم سے باہر نکالتا ہے، خون بنانے میں مدد گار، خون کو صاف رکھنا، نمکیات اور پانی کا توازن رکھنا اور تمام قسم کے فاضل یا فاسد مادے پیشاب کے ذریعے جسم سے باہر نکال دیتا ہے خون کے صاف اور شفاف رہنے کا دارومدار گردوں پر ہی ہے اگر گردے صحت مند حالت میں ہوں گے تو جسم مختلف قسم کی بیماریوں سے آزاد صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوگا اور اگر گردے ناکارہ ہوں گے تو دوران خون مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے ساتھ مختلف بیماریوں کا سبب بھی بن سکے گا۔
گردوں کے بارے آگاہی کیوں ضروری ہے؟
ہمارے ہاں جہاں دیگر بیماریوں کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی وشعور نہ ہونے کے برابر ہے وہیں پر امراض گردہ جیسی بڑی اور خطرناک بیماری کے بارے میں بھی معلومات کی عدم موجودگی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جان لیوا بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں امراض گردہ میں لاکھوں افراد مبتلا ہیں جبکہ ہر سال یہ اعداد و شمار مسلسل بڑھ رہا ہے یعنی ایک اندازے کے مطابق 15سے 20فی صد سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔1990سے 2017تک امراض گردہ سے اموات کی لسٹ میں ستائیس نمبر سے چھٹے نمبر پر آچکا ہے یعنی کہ پوری دنیا میں اموات کے اسباب میں امراض گردہ چھٹے نمبر پر موجود ہے اور خدشہ ہے کہ یہ بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے عالمی دن برائے امراض گردہ منانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ کمیونٹی میں اس بیماری کے بارے آگاہی پھیل سکے تاکہ اس جان لیوا بیماری پر قابو پایا جاسکے۔ہمارے ہاں گردوں کے امراض میں سوزاک، گردوں کی پتھری بننا، انفیکشن وغیرہ عام ہیں جس کی بروقت تشخیص وعلاج نہ ہونے کی وجہ گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں۔
گردوں کی خرابی کے اسباب ؟
ایک وقت تھا جب انسان قدرت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کیا کرتا تھا، تب بیماری کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے اور ایک آج کا دور ہے جہاں ہر بیماری کے بے شمار اسباب سامنے آرہے ہیں اسی طرح گردوں کی خرابی کے چند خاص اسباب ہوا کرتے تھے جیسے موروثی اسباب، شوگر،بلڈپریشر کا مسلسل بڑھنا، گردوں کی پتھری، سوزاک یا دیگر گردوں کے انفیکشن کا بروقت صحیح علاج کا نہ ہونا وغیرہ، لیکن اب یہ لسٹ مزید بڑھ چکی ہے۔آج کل گردوں کے ناکارہ ہونے میں سب سے بڑی وجہ سیلف میڈیکیشن یعنی کہ لوگ خود سے ہر قسم کی ادویات استعمال کررہے ہیں جس میں درد کُش یعنی دردوں کو ختم کرنے کے لئے جن ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ان کا بڑا ہاتھ ہے۔اس کے علاوہ شراب نوشی، صاف پانی کا میسر نہ ہونا، کولڈ ڈرنکس یا انرجی ڈرنکس کا بے دریغ استعمال،پانی کا استعمال کم، فاسٹ فوڈز وغیرہ کا رجحان حد سے بڑھ گیا ہے جن کی وجہ سے امراض گردہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
امراض گردہ کی علامات؟
عام انفیکشن وغیرہ میں تو علامات بہت جلد ظاہر ہوجاتی ہیں جیسے پیشاب کی جلن، بدبو، پیشاب کا باربار آنا، پتھری کی صورت میں درد کا اُٹھنا، متلی وغیرہ لیکن دائمی امراض گردہ میں علامات بہت آہستہ سے سامنے آتی ہیں جیسے کہ بلڈ پریشر کا بڑھنا، جلدی علامات یعنی کہ خارش وخشکی، کمر درد جسم میں سوجن خاص طور پرپاؤں اور چہرے پر، متلی یا الٹی لگنا،جسم میں تھکاؤٹ، بھوک کا نہ لگنا، پیشاب کا مقدار کم یا زیادہ،جھاگ دار یا خون آمیز پیشاب وغیرہ۔
گردوں کے امراض سے بچاؤکیسے؟
صاف اور شفاف پانی کا استعمال کریں، گندہ اور غیر معیاری پانی سے اجتناب کریں،کولڈ ڈرنکس یا انرجی ڈرنکس کی استعمال بندکریں کیونکہ یہ گردوں کے لیے نہایت ہی خطرناک ہیں۔فاسٹ فوڈز یا گرم اشیاء، گوشت، چاول، چکن کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہوٹلوں کے تیز مصالحہ جات سے پرہیز کریں۔تازہ پھل سبزیاں اور سلاد کا استعمال زیادہ سے زیادی کریں اس سے آپ کے جسم سے فاضل مادے خارج ہوسکیں گے۔نمک کا استعمال اعتدال سے کریں۔غیر ضروری ادویات کا استعمال بند کریں اور درد کُش ادویات کا استعمال خود سے بند رکھیں بلکہ ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات کا استعمال کریں۔دائمی امراض جس کے لیے ساری زندگی ادویات لینی ہوں وہاں پر متبادل ادویات یعنی ہومیوپیتھک ادویات ہومیو ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں جو کہ موثر ہیں۔
تشخیص ِ مرض
تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ رپورٹس کئے جاتے ہیں۔ جن میں خون اور پیشاب کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔جن میں آر۔ایف۔ٹی۔، یورین۔آر۔ای۔، یورنین کلچر، الٹراساؤنڈاور گلومیولر فلٹریشن ریٹ چیک کیا جاتا ہے۔
گردوں میں پتھری کیوں؟
گردوں کی پتھری بھی عموماً انہی وجوہات کی بنا پر بنتی ہیں جیسے پانی کم استعمال کرنا، کولڈڈرنکس زیادہ استعمال کرنا، مختلف قسم کی ادویات کے زیادہ استعمال، غیر معیاری خوراک کا استعمال، موروثی اسباب،گردوں کا پرانا انفیکشن، یہ پتھری عام طور پر چار قسم کی ہوتی ہیں کیلشیم آگزلیٹ، یورک ایسڈ، سسٹین، اور کیلشیم فاسفیٹ۔چھوٹی پتھری عام طور پر از خود پیشاپ کے ذریعے نکل جاتی ہیں بڑی سائز کی پتھری کے لیے لیتھوٹرپسی یا سرجری کروائی جاتی ہیں لیکن ایسی صورتحال میں ہومیوپیتھک ادویات بہت ہی فائدہ مند ہیں اور بغیر کسی نقصان کے پتھری کو ادویات کے ذریعے توڑ کر پیشاب کی نالی کے ذریعے جسم سے باہر پھینک دیتی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر دائمی امراض میں بھی یہ ادویات بہت ہی فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں جیسے ڈائیلاسس وغیرہ۔
گردوں کے بارے آگاہی کیوں ضروری ہے؟
ہمارے ہاں جہاں دیگر بیماریوں کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی وشعور نہ ہونے کے برابر ہے وہیں پر امراض گردہ جیسی بڑی اور خطرناک بیماری کے بارے میں بھی معلومات کی عدم موجودگی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جان لیوا بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں امراض گردہ میں لاکھوں افراد مبتلا ہیں جبکہ ہر سال یہ اعداد و شمار مسلسل بڑھ رہا ہے یعنی ایک اندازے کے مطابق 15سے 20فی صد سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔1990سے 2017تک امراض گردہ سے اموات کی لسٹ میں ستائیس نمبر سے چھٹے نمبر پر آچکا ہے یعنی کہ پوری دنیا میں اموات کے اسباب میں امراض گردہ چھٹے نمبر پر موجود ہے اور خدشہ ہے کہ یہ بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے عالمی دن برائے امراض گردہ منانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ کمیونٹی میں اس بیماری کے بارے آگاہی پھیل سکے تاکہ اس جان لیوا بیماری پر قابو پایا جاسکے۔ہمارے ہاں گردوں کے امراض میں سوزاک، گردوں کی پتھری بننا، انفیکشن وغیرہ عام ہیں جس کی بروقت تشخیص وعلاج نہ ہونے کی وجہ گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں۔
گردوں کی خرابی کے اسباب ؟
ایک وقت تھا جب انسان قدرت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کیا کرتا تھا، تب بیماری کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے اور ایک آج کا دور ہے جہاں ہر بیماری کے بے شمار اسباب سامنے آرہے ہیں اسی طرح گردوں کی خرابی کے چند خاص اسباب ہوا کرتے تھے جیسے موروثی اسباب، شوگر،بلڈپریشر کا مسلسل بڑھنا، گردوں کی پتھری، سوزاک یا دیگر گردوں کے انفیکشن کا بروقت صحیح علاج کا نہ ہونا وغیرہ، لیکن اب یہ لسٹ مزید بڑھ چکی ہے۔آج کل گردوں کے ناکارہ ہونے میں سب سے بڑی وجہ سیلف میڈیکیشن یعنی کہ لوگ خود سے ہر قسم کی ادویات استعمال کررہے ہیں جس میں درد کُش یعنی دردوں کو ختم کرنے کے لئے جن ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ان کا بڑا ہاتھ ہے۔اس کے علاوہ شراب نوشی، صاف پانی کا میسر نہ ہونا، کولڈ ڈرنکس یا انرجی ڈرنکس کا بے دریغ استعمال،پانی کا استعمال کم، فاسٹ فوڈز وغیرہ کا رجحان حد سے بڑھ گیا ہے جن کی وجہ سے امراض گردہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
امراض گردہ کی علامات؟
عام انفیکشن وغیرہ میں تو علامات بہت جلد ظاہر ہوجاتی ہیں جیسے پیشاب کی جلن، بدبو، پیشاب کا باربار آنا، پتھری کی صورت میں درد کا اُٹھنا، متلی وغیرہ لیکن دائمی امراض گردہ میں علامات بہت آہستہ سے سامنے آتی ہیں جیسے کہ بلڈ پریشر کا بڑھنا، جلدی علامات یعنی کہ خارش وخشکی، کمر درد جسم میں سوجن خاص طور پرپاؤں اور چہرے پر، متلی یا الٹی لگنا،جسم میں تھکاؤٹ، بھوک کا نہ لگنا، پیشاب کا مقدار کم یا زیادہ،جھاگ دار یا خون آمیز پیشاب وغیرہ۔
گردوں کے امراض سے بچاؤکیسے؟
صاف اور شفاف پانی کا استعمال کریں، گندہ اور غیر معیاری پانی سے اجتناب کریں،کولڈ ڈرنکس یا انرجی ڈرنکس کی استعمال بندکریں کیونکہ یہ گردوں کے لیے نہایت ہی خطرناک ہیں۔فاسٹ فوڈز یا گرم اشیاء، گوشت، چاول، چکن کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہوٹلوں کے تیز مصالحہ جات سے پرہیز کریں۔تازہ پھل سبزیاں اور سلاد کا استعمال زیادہ سے زیادی کریں اس سے آپ کے جسم سے فاضل مادے خارج ہوسکیں گے۔نمک کا استعمال اعتدال سے کریں۔غیر ضروری ادویات کا استعمال بند کریں اور درد کُش ادویات کا استعمال خود سے بند رکھیں بلکہ ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات کا استعمال کریں۔دائمی امراض جس کے لیے ساری زندگی ادویات لینی ہوں وہاں پر متبادل ادویات یعنی ہومیوپیتھک ادویات ہومیو ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں جو کہ موثر ہیں۔
تشخیص ِ مرض
تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ رپورٹس کئے جاتے ہیں۔ جن میں خون اور پیشاب کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔جن میں آر۔ایف۔ٹی۔، یورین۔آر۔ای۔، یورنین کلچر، الٹراساؤنڈاور گلومیولر فلٹریشن ریٹ چیک کیا جاتا ہے۔
گردوں میں پتھری کیوں؟
گردوں کی پتھری بھی عموماً انہی وجوہات کی بنا پر بنتی ہیں جیسے پانی کم استعمال کرنا، کولڈڈرنکس زیادہ استعمال کرنا، مختلف قسم کی ادویات کے زیادہ استعمال، غیر معیاری خوراک کا استعمال، موروثی اسباب،گردوں کا پرانا انفیکشن، یہ پتھری عام طور پر چار قسم کی ہوتی ہیں کیلشیم آگزلیٹ، یورک ایسڈ، سسٹین، اور کیلشیم فاسفیٹ۔چھوٹی پتھری عام طور پر از خود پیشاپ کے ذریعے نکل جاتی ہیں بڑی سائز کی پتھری کے لیے لیتھوٹرپسی یا سرجری کروائی جاتی ہیں لیکن ایسی صورتحال میں ہومیوپیتھک ادویات بہت ہی فائدہ مند ہیں اور بغیر کسی نقصان کے پتھری کو ادویات کے ذریعے توڑ کر پیشاب کی نالی کے ذریعے جسم سے باہر پھینک دیتی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر دائمی امراض میں بھی یہ ادویات بہت ہی فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں جیسے ڈائیلاسس وغیرہ۔
ڈائیلسس کیوں؟
دراصل دائمی امراض گردہ میں جب گردہ بالکل ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یعنی 15فی صد بھی جب کام نہ کررہا ہوں تو مجبوراً ایسے مریضوں کو ڈائیلسس پر ڈال دیا جاتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن خون کی فلٹریشن یا خون سے فاسد مادے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو سے ڈھائی لاکھ افراد ڈائیلسس پر چلے جاتے ہیں۔جو کہ ایک تکلیف دہ اور مشکل کام ہے، متبادل طریقہ علاج بھی اس میں مددگار ہے، ہومیوپیتھک ادویات ڈائیلاسس کا دورانیہ بڑھانے میں معاون و مددگار ہیں۔
دراصل دائمی امراض گردہ میں جب گردہ بالکل ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یعنی 15فی صد بھی جب کام نہ کررہا ہوں تو مجبوراً ایسے مریضوں کو ڈائیلسس پر ڈال دیا جاتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن خون کی فلٹریشن یا خون سے فاسد مادے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو سے ڈھائی لاکھ افراد ڈائیلسس پر چلے جاتے ہیں۔جو کہ ایک تکلیف دہ اور مشکل کام ہے، متبادل طریقہ علاج بھی اس میں مددگار ہے، ہومیوپیتھک ادویات ڈائیلاسس کا دورانیہ بڑھانے میں معاون و مددگار ہیں۔
ایلوپیتھک علاج؟
گردوں کی مختلف بیماریوں میں ایلوپیتھک ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ انفیکشن وغیرہ کو ختم کرنے کے لیے انٹی بائیوٹیکس کا استعمال کروایا جاتا ہے، اس کے علاوہ گردوں کی پتھری میں لیتھوٹرپسی یا سرجری تجویز کی جاتی ہیں۔موجودہ دور میں انٹی بائیوٹیکس کے بے دریغ استعمال سے کچھ جراثیم مزاحمت پیدا کرچکے ہیں یا چند ایک پر کوئی انٹی بائیوٹیک کام نہیں کررہا ہے۔
جس کی وجہ سے مریضوں میں انٹی بائیوٹیکس فائدہ مند ثابت نہیں ہورہے ہیں، اور مختلف جراثیمی انفیکشن آہستہ آہستہ گردوں کے ناکارہ ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ماہرین صحت نئی انٹی بائیوٹیکس کی طرف دیکھ رہی ہیں اور مستقبل میں یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔لہٰذا ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں ادویات کا بے دریغ استعمال بند کرنا پڑے گا اور انٹی بائیوٹیکس کا استعمال کم سے کم تر کرنا ہوگا اور متبادل ادویات یعنی کہ ہومیوپیتھک ادویات کا استعمال کرنا چاہیے جو کہ بے ضرر اور نقصان دہ نہیں، لیکن وہاں بھی ہمیں خود سے ادویات استعمال نہیں کرنی چاہیے بلکہ کوالیفائیڈ ہومیو فزیشن کے مشورے سے ادویات کا استعمال کرنا چاہیے۔
گردوں کی مختلف بیماریوں میں ایلوپیتھک ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ انفیکشن وغیرہ کو ختم کرنے کے لیے انٹی بائیوٹیکس کا استعمال کروایا جاتا ہے، اس کے علاوہ گردوں کی پتھری میں لیتھوٹرپسی یا سرجری تجویز کی جاتی ہیں۔موجودہ دور میں انٹی بائیوٹیکس کے بے دریغ استعمال سے کچھ جراثیم مزاحمت پیدا کرچکے ہیں یا چند ایک پر کوئی انٹی بائیوٹیک کام نہیں کررہا ہے۔
جس کی وجہ سے مریضوں میں انٹی بائیوٹیکس فائدہ مند ثابت نہیں ہورہے ہیں، اور مختلف جراثیمی انفیکشن آہستہ آہستہ گردوں کے ناکارہ ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ماہرین صحت نئی انٹی بائیوٹیکس کی طرف دیکھ رہی ہیں اور مستقبل میں یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔لہٰذا ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں ادویات کا بے دریغ استعمال بند کرنا پڑے گا اور انٹی بائیوٹیکس کا استعمال کم سے کم تر کرنا ہوگا اور متبادل ادویات یعنی کہ ہومیوپیتھک ادویات کا استعمال کرنا چاہیے جو کہ بے ضرر اور نقصان دہ نہیں، لیکن وہاں بھی ہمیں خود سے ادویات استعمال نہیں کرنی چاہیے بلکہ کوالیفائیڈ ہومیو فزیشن کے مشورے سے ادویات کا استعمال کرنا چاہیے۔
ہومیوپیتھک علاج
دیگر مختلف بیماریوں کی طرح امراض گردہ میں بھی ہومیوپیتھک ادویات پوری دنیا میں کامیابی سے استعمال کروائی جاتی ہیں جو کہ بہت ہی فائدہ مند اور بغیر کسی نقصان کے استعمال ہورہی ہیں۔گردے کی پتھری میں تو اب ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرنے کی سفارش کرتے ہیں کیونکہ اس سے بہت ہی آسانی سے گردے کی پتھری تحلیل ہوکر پیشاب کے ذریعے جسم سے باہر نکل جاتی ہیں بلکہ صرف یہی نہیں بلکہ بار بار بننے والی پتھری کا رجحان بھی ختم ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ عام انفیکشن سے لیکر دائمی امراض گردہ میں بھی یہ ادویات بہت ہی اچھے ریزلٹ فراہم کرتی ہیں حتیٰ کہ ڈائیلاسس جیسے خطرناک سٹیج پر بھی یہ ادویات معاون ثابت ہوسکتی ہیں بشرطیکہ کسی کوالیفائیڈ اچھے ہومیو فزیشن کے مشورے سے ادویات استعمال کروائی جائیں جس سے نہ صرف ڈائیلاسس کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ دیگر پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔دور ِ حاضر کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا کہ ہم روایتی ادویات یا علاج کے ساتھ ساتھ متبادل ادویات یعنی کہ قدرتی ذرائع علاج کے بارے میں بھی اچھی خاصی معلومات رکھیں اور بروقت اپنی صحت اور بیماری کے کنڈیشن کے مطابق ادویات کا انتخاب کرسکے۔متبادل ادویات جس میں ہومیوپیتھک ادویات سرفہرست ہیں،اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس طریقہ علاج سے مستفید ہوں جس سے نہ صرف پیچیدہ بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ موجودہ دور کی بیماریوں میں بھی خاصی کمی کی جاسکتی ہیں۔اور عالمی ادارہ صحت کا ہیلتھ کے بارے چیلنج کو قابو کیا جاسکے گا۔