زینت امان نے سیاحتی ٹاؤن لوناوالا میں ہدایتکار بی آر چوپڑہ کی فلم ’انصاف کا ترازو‘ کا ایک منظر عکس بند کرانے کے بعد سستانے کے لئے کرسی پر ٹیک ہی لگائی تھی کہ ان کی ہئیر سٹائلسٹ فلوری نے آ کر انہیں بتایا کہ ہوٹل استقبالیہ پر اُن کے لئے بمبئی سے فون آیا ہے۔ زینت امان نے ناگواری کے ساتھ بھنوئیں چڑھائیں اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئیں لابی تک پہنچیں۔ فلم کا ایک منظر اسی ہوٹل میں عکس بند کیا جانا تھا، اسی لئے پورا یونٹ وہیں تھا۔ زینت امان کی عادت تھی کہ وہ عکس بندی کے دوران کسی کی فون کال نہیں سنتی تھیں۔ اسی لئے انہیں شدید غصہ آ رہا تھا۔ فلوری نے جس طرح راز داری کے انداز میں کان میں آکر سرگوشی کی تھی، اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کوئی اہم ہی فون ہے ورنہ وہ کب کا ٹال دیتیں۔
ریسیور اٹھایا تو دوسری جانب انتہائی غصے میں آواز سنائی دی ’تمہیں فوراً بمبئی آنا ہوگا۔‘ زینت کی اس آواز سے خاصی شناسائی تھی، اسی لئے انہوں نے بھی تنک کر پوچھا ’سنجے بتا سکتے ہو کیوں؟‘ دوسری جانب سے اور کرخت لہجے میں کہا گیا ’عبداللہ کا ایک گانا میں پھر سے شوٹ کر رہا ہوں اور اس کے لئے تمہاری ضرورت ہے۔‘ اس بار زینت امان کا پارہ بلندی کو چھونے لگا جنہوں نے غصے میں کہا ’عبداللہ کا جتنا کام تھا، میں مکمل کرا چکی ہوں، اِس وقت میں دوسری فلم میں مصروف ہوں۔ وقت ملا تو تمہاری خواہش پوری کر دوں گی سنجے۔‘ اس مرتبہ مخاطب شخص نے چلاتے ہوئے کہا ’میں سنجے خان ہوں۔۔ سنجے۔۔ جو کہہ رہا ہوں، اُسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ناں سننے کی مجھے عادت نہیں۔۔ جانتی ہو نا اس کے نتائج۔۔‘ یہ کہہ کر فون اتنی زور سے بند کیا گیا جس کی آواز زینت امان کے کانوں کو ہلا گئی تھی۔ وہ سوچ میں گم ہو گئیں کہ اب کریں تو کیا؟
سنجے خان اور زینت امان کی پہلی ملاقات 1973 میں آئی فلم ’دھند‘ میں ہوئی تھی۔ زینت امان کو خوبرو اور مردانہ وجاہت کے حامل سنجے خان میں غیر معمولی کشش نظر آئی۔ سنجے جن کا اصل نام عباس ہے، وہ بھی زینت امان سے جلدی گھل مل گئے، دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ سیٹ پر دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر تبادلہ بھی ہوتا رہا، اس مووی کے بعد زینت امان کی کامیابی کا وہ سفر شروع ہوا جس کی آرزو ہر اداکارہ کو ہوتی ہے۔ وہ 1970 میں ’مس انڈیا ایشیا پیسفک‘ کا اعزاز رکھتی تھیں۔ اسی لئے فلموں میں موقع ملنا آسان ہو گیا تھا۔ دوسرے والد صاحب امان کا تعارف ہی ان کے لئے معاون ثابت ہوا۔ امان صاحب، شہرہ آفاق فلم ’مغل اعظم‘ رائٹرز میں سے ایک تھے۔ زینت امان میں فلمی ہیروئنز والی خوبصورتی اور دلکشی تو نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ان کا رنگ بھی سانولا تھا، اسی لئے انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ہوشربا ادائیں اور مختصر لباس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کا راستہ چنا۔
زینت امان، بھارتی فلموں میں اپنے لئے بولڈ اور بے باک اداکارہ کی ایسی شناخت بنا رہی تھیں کہ فلم ساز انہیں ’ہاٹ کیک‘ سمجھتے۔ بالی وڈکے ٹاپ کلاس ہیروز کی ہیروئن بن گئی تھیں، اداکاری کے ساتھ ساتھ عامیانہ اور قابل اعتراض مناظر کی عکس بندی میں کسی قسم کی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ کامیاب فلموں کی ایک لمبی قطار تھی جو زینت امان کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔
یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ زینت امان کے لئے کئی ہیروز دل میں راہیں بچھائے بیٹھے رہتے لیکن ان کا دل اٹکا ہوا تھا تو سنجے خان میں ہی، جن کے بھائی فیروز خان کے ساتھ وہ فلموں میں کام کر چکی تھیں لیکن سنجے خان کی پراثر شخصیت کے سحر سے نکل ہی نہیں پا رہی تھیں۔ جن کے ساتھ وہ اکثر ملاقاتوں کی شامیں بھی بتا رہی تھیں۔
اسی دوران جب سنجے خان نے بھاری سرمائے پر مبنی ’عبداللہ‘ میں زینت امان کو کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تو اس فلم کی عکس بندی کے دوران دونوں اور زیادہ قریب ہو گئے۔ زینت امان جانتی تھیں کہ سنجے خان شادی شدہ اور تین بچوں کے والد ہیں لیکن اس کے باوجود دل ہار گئیں۔ فلم کی عکس بندی جوں جوں آگے بڑھ رہی تھیں، وہیں ان دونوں کی پیار بھری کہانی بھی۔ کہا جاتا ہے کہ 30 دسمبر 1978 کی یخ بستہ رات میں آخر کار دونوں نے ہوٹل کے کمرے میں خاموشی سے نکاح کر لیا۔ زینت کو جس سہارے اور محبت کی تلاش تھی وہ پوری ہو چکی تھی۔ زینت امان کی خواہش تھی کہ سنجے خان اس نئے رشتے کو دنیا کے سامنے بیان کریں لیکن وہ ہمیشہ یہ بات ٹالتے رہے۔ دنیا کو کیا پتا لگتا لیکن یہ نیا رشتہ، سنجے خان کی بیوی زریں خان کے کانوں تک پہنچ گیا جن کے دباؤ میں آ کر سنجے خان نے سال بھر میں زینت امان سے تعلق توڑ ہی لیا۔
زینت امان شش و پنج کا شکار تھیں۔ سوچ رہی تھیں کہ جائیں کہ نہ جائیں بمبئی۔ مانا کہ سنجے خان سے اب ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پیشہ ور اداکار ہ ہونے کے خاطر ان کا دل یہ گوارہ نہیں کر رہا تھا کہ پروڈیوسر کا نقصان کریں، وہ چاہتی تھیں کہ سنجے خان سے ملاقات کر کے انہیں سمجھائیں کہ دیگر فلمی مصروفیات انہیں ’عبداللہ‘ کے اس گانے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ اسی سوچ کے خاطر انہوں نے ہدایتکار بی آر چوپڑہ سے ایک دن کی رخصت مانگی اور سیدھی بمبئی پہنچیں۔ سنجے خان کے عالی شان بنگلے پر آنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کسی پارٹی میں گئے ہوئے ہیں۔ زینت امان کی منزل اب وہی پارٹی تھی۔
سنجے خان کے قریبی دوست کی پارٹی میں جیسے ہی زینت امان کی آمد ہوئی تو مہمان تو دم بخود رہ گئے۔ خاص کر ایسے میں جب زریں خان بھی اس پارٹی میں موجود ہوں۔ سنجے خان اب ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک کمرے میں لائے، زینت امان ان کو اپنی مجبوری بیان کر رہی تھیں کہ اچانک ہی سنجے خان غصے میں لال ہو گئے۔ ان کی زور زور سے چیخنے کی آوازیں اب مہمانوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ جنہوں نے زینت امان پر ایک سے زیادہ معاشقے کرنے کا الزام تھونپا، یہاں تک کہا کہ فلمی مصروفیات نہیں بلکہ ان کے پاس اپنے عاشقوں کی وجہ سے ’عبداللہ‘ کے لئے اب وقت نہیں۔ زینت امان کی تردید یا وضاحت کوئی کام نہیں آ رہی تھی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ بگولہ ہوتے سنجے خان نے زینت امان پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی فلمی جرائد کے مطابق اس سارے واقعے میں زریں خان بھی کمرے میں آ گئی تھیں۔ جنہوں نے اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔ سنجے خان نے زینت امان کو اس قدر بے دردی سے مارا کہ وہ لہو لہان ہو گئیں، یہاں تک کہ جان بچاتے ہوئے کمرے سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کہ سنجے خان کے اس تشدد کی وجہ سے زینت امان کا چہرہ بری طرح متاثر ہوا۔ ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کے مطابق جب وہ اُن کے پاس آئیں تو پورا چہرہ خونم خون تھا۔ چہرے کی تو زینت امان نے پلاسٹک سرجری بھی کرائی البتہ اس مار پیٹ کی وجہ سے ان کی دائیں آنکھ کو خاصا نقصان پہنچا۔ جبھی وہ بعد میں فلمی تقریبات میں عینک لگا کر آتیں۔ یہ زینت امان کا ہی ظرف تھا کہ انہوں نے اس واقعے کی پولیس میں رپورٹ نہیں کی۔ جب کہ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعے کو ذہن سے نکال چکی ہیں۔ ایسا محسوس کرتی ہیں کہ یہ جیسے ہوا ہی نہیں اور اس موضوع پر بات کرنا بھی نہیں چاہتیں۔ اُدھر ایک ریڈیو انٹرویو میں سنجے خان نے اس سارے واقعے کو فلمی جرائد کا گھڑا ہوا فسانہ قرار دیا۔ بھارتی فلمی جرائد سنجے خان کے اس بیان کوماننے کو تیار نہیں۔
یہ بھی حسن اتفاق کہیں یا المیہ ہی ہے کہ زینت امان نے بعد میں ایک اور خان یعنی مظہر خان سے بیاہ رچایا تو یہ فیصلہ بھی ان کے لئے تکلیف دہ اور درد ناک ثابت ہوا۔ زینت امان ایک طویل عرصے تک مظہر خان کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکار رہیں۔ کئی بار پولیس رپورٹس بھی درج ہوتی رہیں۔ مظہر خان کی 1998 میں وفات کے بعد زینت امان کا نام ایک بار پھر خبروں میں اُس وقت آیا، جب 2018 میں انہوں نے ایک تاجر امن کھنہ کے خلاف زیادتی، دھوکہ دہی اور فراڈ کا کیس فائل کیا۔