میرا نام سندیش کمار ہے اور میرا تعلق ہندومت سے ہے۔ میرے نام کی وجہ سے لاہور اور مرکزی پنجاب کے دیگر شہروں میں رہنے والے مذہبی اکژیت سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ مجھے انڈین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوں کی 80 لاکھ آبادی ہونے کے باوجود لاہور اور آس پاس کے شہروں میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو پہلی نظر میں ہی مجھے انڈین قرار دیتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا انکے ذہنوں میں ابھی بھی پاک انڈیا ہجرت کے اثرات باقی ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ پنجاب میں ہندوں کی آبادی سندھ کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ ایسے لوگ ہندوں کی موجودگی سے بے خبر ہیں کیونکہ پاکستان کے جھنڈے میں موجود سفید رنگ اقلیتوں کی نشاہدی کرتا ہے۔ میرا تعلق کشمور سے ہے، وہاں میں کبھی امتیازی سلوک کا شکار نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج سے تقریبَا 5سال پہلے جب میں لاہور پڑھنے آیا تو پہلے چند دن تو مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک ملک سے دوسرے ملک آگیا ہوں۔
یہاں کے لوگ، یہاں کے کھانے اوریہاں کے طور طریقوں میں اتنا ہی فرق تھا جتنا آگ اور پانی میں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں لاہور میں پہلی مرتبہ آیا تھا، لیکن کسی جگہ صرف تفریح کے لئے گھومنے پھرنے او روہاں رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک دن میں گاڑی میں بیٹھا فون پر اپنی مادری زبان سندھی میں گھر بات کر رہا تھا،میں نے محسوس کیا کہ میرے قریب کھڑے ایک انکل میری بات غور سے سن رہے تھے۔ انکے سننے کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا کہ و ہ بہت کوشش کر رہے تھے کہ ان کو میری بات سمجھ آجائے۔ وہ انکل بڑی بے چینی سے میری بات ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے،جو مجھے ذرا عجیب لگا۔ میرے چاچا جو کسی زمانے میں لاہور میں ریلوے میں افسر تھے اور سندھی پنجابی تضاد کی وجہ سے لاہور میں زیادہ دیر گزارہ نہ کر سکے ا ور لاہور چھوڑ کے چلے گئے۔ میں نے اپنے چاچا سے لاہور کے لوگوں کے بارے میں بہت سی باتیں سنی تھی۔
ان باتوں کو سوچ کر جب میں نے ڈر سے فون بند کیا اور ان انکل نے مجھ سے بات کرنا شروع کی تو میرے دل میں ایک خوف سا تھا۔یہ کونسی زبان ہے؟انکل نے پوچھا۔ سندھی، میں نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا۔ جب ہم نے مزید بات کی تو مجھے لگا کے میرا ڈربے بنیاد ہے اور وہ انکل صرف میرے شہر کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ کافی بات چیت کے بعد جب میں مطمئن ہونا شروع ہوا، انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا،سندیس کمار، میں نے بتایا۔ نام سنتے ہی انہوں نے پوچھا،کیاتم انڈین ہو؟ حیرت کی بات ہے کہ پچھلے 4 سٹاپ سے میں انکو اپنے شہر کے بارے میں بتا رہا تھا، اب انکا یہ پوچھنا مجھے عجیب سا لگااور اتنے میں میرا سٹاپ بھی آگیا۔ اب اسے خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی وہ انکل بھی اسی سٹاپ پر اتر گئے۔
باہر آ کے یہ سوال انہوں نے مجھ سے دوبارہ پوچھا تو میں نے کہا کہ میں نے آپ کو بتا یا بھی ہے کہ میں سندھی ہوں۔ انکی نظر میں ہندواور انڈین میں کوئی فر ق نہیں تھا۔ میں نے انکو کو تھوڑا سمجھانے کی کوشش کی کہ میر ا مذہب ’سنا تن درھمی‘ ہندومت ہے جبکہ میرے آباواجداد کا تعلق پاکستان سے ہی ہے۔ پھرانہوں نے مجھ سے ایک دو سوال ایسے کئے جو ہر اس انسان کے ذہن میں آ سکتے ہیں جو کسی ہندو سے پہلی بار ملتا ہے۔ مجھے تب ایسی باتوں کا کچھ خاص علم نہیں تھا،اور میں نے اگلے چند منٹوں میں ان سے کہاکہ میری کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے۔ میں جب وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں جن کو سن کر میں اگلے چند گھنٹے اسی سوچ میں رہا کہ کوئی کسی کو ایسی باتیں کیسے کر سکتا ہے۔ اگر میں درست بات کروں تو وہ کہہ رہے تھے کہ بیٹا، آپ پاکستان میں رہ رہے ہیں، آپ ہم سے متاثر ہو کر ہمارا مذہب قبول کر لیں اور جنت کے دروازے اپنے لئے کھول لیں۔
ان انکل کی ایک بات جو آج بھی مجھے یاد ہے وہ یہ تھی کہ اگر میں انکا مذہب قبول کرتا ہوں تو میرے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور میرا وجود ایسے ہو گا جیسے ایک نوزائیدہ بچے کا ہوتا ہے۔ اب میرا وہ پہلا تجربہ تھا اور مجھے لگا کہ مجھے اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات ہونی چاہیں تاکہ اگلی بار میں ایسے سوالات کے جوابات دے سکوں۔ اس بات کا اندازہ تو مجھے ہو گیا تھاکہ ا ور لوگ بھی مجھ سے ایسے سوالات پوچھ سکتے ہیں، لیکن یہ کتنی بار ہو گا اس کا اندازہ مجھے نہیں تھا۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا با ر بار ہوا۔
میرے کالج کے دوسرے ہی ہفتے میں میرے ہم جماعتوں نے بھی ایسی باتیں پوچھنا شروع کر دیں جنہوں نے مجھے بہت بے چین کر دیا۔ میں نے پہلا پورا مہینہ کالج میں بغیر کسی سے بات چیت کئے گزار دیا۔ ایسا نہیں تھا کہ سب لوگ ہی ایسی باتیں کرتے تھے بلکہ کچھ لوگ مجھے خاص توجہ بھی دیتے تھے۔ اب 5سال گزرنے کے بعد ابھی بھی کچھ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو مجھے بری محسوس ہوتی ہیں۔ اب میرے پاس کچھ جوابات اور کبھی کبھار ایسے سوالات بھی ہوتے ہیں جو انکو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، کہ مذہب اور انسانیت دو الگ چیزیں ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ بے شک ہمارا رنگ، نسل، ثقافت اور مذہب الگ ہی کیوں نہ ہوں کہ ہم سب ایک’حاکم اعلیٰ کی مخلوق ہیں۔ لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ حکومتی سطح پر ایسے ادارے اور پلیٹ فارمز موجود ہونے چاہیں جہاں پر مذہبی اور سماجی بنیادوں پر ہونے والے امتیازی سلوک کو رپورٹ کیا جا سکے اور ریاست امتیازی سلوک کا تدارک کر سکے