سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آ رہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں۔ جب تک عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا، تب تک میں کسی سے بات نہیں کروں گا۔
یہ بات انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بہت سے آپشن کھل جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد مارچ کیلئے تیاری شروع کر دی ہے۔
مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک کا دعویٰ
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے 30 اراکین صوبائی اسمبلی فارورڈ بلاک بنانا چاہتے تھے۔ اگر یہ بلاک بن جاتا تو شریفوں کی سیاست ختم ہو جاتی لیکن ان اراکین کو پاورفل حلقوں نے پیغام دیا کہ جہاں ہیں، وہیں رہیں۔ آٹھ دس افراد کو کرپشن میں سزا ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ ایسے فیصلے ہوتے رہے کہ میری حکومت کمزور رہے۔ مجھے اپوزیشن کی سازش کا جون سے علم تھا۔ میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل جنرل فیض حمید کو سیاسی صورتحال کیلئے بھی بطور آئی ایس آئی سربراہ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
جنرل فیض حمید اور عثمان بزدار کا معاملہ
انہوں نے تسلیم کیا کہ جنرل فیض حمید کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کیساتھ میرا ایشو تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ وہ موسم سرما تک خفیہ ادارے کی کمان سنبھالے رہیں کیونکہ افغانستان کی صورتحال بہت خراب تھی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرا اسٹیبلشمنٹ سے جنرل فیض حمید اور عثمان بزدار کے معاملے پر عدم اتفاق رہا۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ میں عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دوں۔ لیکن میرا موقف تھا کہ ان کی جگہ کسی اور کو لگایا تو پی ٹی آئی میں دھڑے بندی ہو جائے گی۔
کارکردگی پر توجہ دیں، کرپشن کیسز کے پیچھے نہ پڑیں
عمران خان کا کہنا تھا مجھے کہا جاتا تھا کہ کارکردگی پر توجہ دیں، کرپشن کے کیسز کے پیچھے نہ پڑیں۔ لیکن میں سمجھتا تھا کرپشن ہمارا نظریہ ایک ہے لیکن یہ چیز تو اہم شخصیات کیلئے مسئلہ ہی نہیں تھی۔ میں صدمے میں ہوں کہ یہ لوگ چوروں کو اقتدار میں لے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن چوروں کو اقتدار دے دیا گیا ہے، اس سے تو بہتر تھا کہ پاکستان پر جوہری بم گرا دیتے۔ جو جرائم پیشہ افراد لائے گئے، انہوں نے ہمارا جوڈیشل نظام اور ہر ادارہ تباہ کر دیا ہے۔ اب کون ان کریمنلز کے مقدمات کی تحقیقات کرے گا؟