Get Alerts

پاکستان کی سپورٹ جاری رکھیں گے : آئی ایم ایف 

آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق اگرچہ ملک میں جاری سیاسی بے یقینی معیشت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان تیزی سے معاشی بہتری کی جانب گامزن ہے۔سیاسی بے یقینی کے باوجود نگران حکومت اور موجودہ حکومت کے معاشی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات قابل تعریف ہیں۔

پاکستان کی سپورٹ جاری رکھیں گے : آئی ایم ایف 

بجٹ اور نئے قرض پروگرام پر پاکستان اور  بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔

ذرائع کے مطابق معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ملکر کام کرنے پر اتفاق ہوگیا۔

تعارفی سیشن کے دوران آئی ایم ایف مشن نے نئے قرض پروگرام سائن کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ قرض پروگرام کا سائز اور حجم آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی مشاورت سے فائنل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

آئی ایم ایف مشن چیف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف جو تجاویز دے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی میدان میں چیلنجز درپیش ہوئے۔ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مشن چیف نے مزید کہا کہ معاشی استحکام بھی سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہے، مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے۔ پاکستان کی سپورٹ جاری رکھیں گے۔معاشی ٹیم کیساتھ آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بھی کام کریں گے۔

قبل ازیں مذاکرات کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ کا وفد وزارت خزانہ پہنچا جہاں آئی ایم ایف مشن اور وزارت خزانہ حکام کے درمیان تعارفی سیشن ہوا۔ پاکستان کی معاشی ٹیم کی قیادت وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد کی قیادت مشن چیف نیتھن پورٹر نے کی۔

اس موقع پر وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے آئی ایم ایف مشن کو موجودہ معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے سے ملکی معیشت میں بہتری آئی۔  پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نیا قرض پروگرام سائن کرنے کیلئے تیار ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں رہ کر معیشت درست سمت گامزن ہے۔

آئی ایم ایف مشن نے ملکی معیشت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

ذرائع کے مطابق نئے قرض پروگرام اور بجٹ کیلئے آئی ایم ایف مشن اور وزارت خزانہ حکام میں اتفاق ہوا ہے۔ پاکستان میں غریب لوگوں کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

مشن چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے معیشت کی بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن ہیں۔

دوسری جانب وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ وفاقی بجٹ کیلئے اہم اہداف طے پا گئے۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض نہیں لے گی۔ بیرونی ادائیگیاں بلا تاخیر بروقت کی جائیں گی، وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان اتفاق ہوگیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اہداف میں طے پایا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس ریفنڈ ادائیگیاں بروقت کرنے کا پابند ہوگا۔ زرمبادلہ ذخائر بہتر بنانے اور ادائیگیوں کیلئے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کا اجرا کیا جائے گا۔درآمدات اور انٹرنیشنل ٹرانزکشنز پر پابندی عائد نہیں ہوگی۔

اہداف میں طے پایا کہ سٹیٹ بینک، وزارت خزانہ، وزارت توانائی کی معلومات آئی ایم ایف کو بھیجی جائیں گی۔ ایف بی آر، شماریات بیورو، مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی معلومات آئی ایم ایف لے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

خیال رہے کہ آئی ایم ایف مشن کے دو ہفتوں تک معاشی ٹیم کیساتھ مذاکرات جاری رہیں گے۔

ذرائع کے مطابق نئے قرض پروگرام کیلئے پاکستان کی معاشی ٹیم نے تمام ورکنگ مکمل کر لیا۔ آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی قرض پروگرام کیلئے ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے۔

اس سے قبل پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف مشن اگلے ہفتے پاکستانی حکام سے مذاکرات کرے گا۔

اپنے بیان میں ایستھر پیریز نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن کا وفد ناتھن پورٹر کی قیادت میں اگلے پروگرام کیلئے مذاکرات کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں لچکدار معاشی ترقی کی بنیاد رکھنے پر بات ہوگی۔

آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے مزید کہا کہ مذاکرات سے گورننس اور معیشت کے لئے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

پاکستان سیاسی بے یقینی کے باوجود تیزی سے معاشی بہتری کی جانب گامزن ہے؛ آئی ایم ایف رپورٹ

علاوہ ازیں، گزشتہ روز آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ نئے قرض پروگرام سے قبل 65 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ملک میں جاری سیاسی بے یقینی معیشت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان تیزی سے معاشی بہتری کی جانب گامزن ہے۔

رپورٹ میں سیاسی بے یقینی کے باوجود نگران حکومت اور موجودہ حکومت کے معاشی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی زبردست تعریف بھی کی ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف ) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد نئی کابینہ نے 11 مارچ کو حلف اٹھایا۔ پچھلی حکومت کی دو بڑی جماعتوں (اپریل 2022ء تا اگست 2023ء) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کچھ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد تشکیل دیا اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد امیدواروں نے کسی بھی دوسرے سیاسی گروپ کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے اور قومی اسمبلی میں ایک بڑی اپوزیشن تشکیل دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 29اپریل2024 آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستانی حکام کی جانب سے جولائی 2023ء میں سٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) کے آغاز کے بعد سے انتھک کوششوں اور قریبی روابط پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی ٹیم پالیسی مشورے پر خصوصی تعریف کی مستحق ہے جس نے پاکستان کو پچھلے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت کیے گئے تمام اقدامات کو مکمل کرنے میں مدد کی، ہمارے حکام نے پروگرام کے تحت طے شدہ تمام اہداف کو پورا کرکے اور ایس بی اے کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کرکے اپنے وعدے پر عمل کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 میں ایک نئی منتخب حکومت نگران حکومت کے تقریباً سات ماہ کے بعد اقتدار میں آئی جس نے ایس بی اے پر مسلسل عمل درآمد جاری رکھا۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ مخلوط حکومت تقریباً انہی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ای ایف ایف پروگرام کے تحت کیے گئے تمام اقدامات پر عمل درآمد کیا اور ایس بی اے کے تحت تمام پیشگی اقدامات کی منظوری دی۔

 انتخابات کے بعد سبکدوش ہونے والی حکومت کی اقتدار میں واپسی کا مطلب یہ ہے کہ ایس بی اے کے تحت طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے سے وابستگی جاری رہے گی۔ اس کا مطلب نہ صرف اصلاحات کے تسلسل کا زیادہ امکان ہے بلکہ اگلے 5 سالوں کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے۔

اگرچہ انتخابات کے بعد بعض حلقوں میں انتخابی نتائج کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کی گئی لیکن موجودہ حکومت کے حق میں ابتدائی فیصلوں نے ملک کے آئینی اور سیاسی نظام کے جواز اور استحکام کو تقویت دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے بعد سماجی و سیاسی تناؤ میں کمی آئی ہے اور دوسرے جائزے کی تکمیل کے لیے سٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) کے بعد اعتماد بحال ہوا ہے۔ معاشی محاذ پر پاکستان کی معاشی اور مالی حالت میں مسلسل بہتری آرہی ہے جو دانشمندانہ پالیسی مینجمنٹ اور کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے سرمایہ کاری کی بحالی کی عکاسی کرتی ہے۔

گزشتہ 2 سہ ماہیوں میں معاشی بحالی دیکھی جا سکتی ہے اور افراط زر میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور بنیادی افراط زر مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے 15 فیصد کے آس پاس منڈلا رہا ہے۔

سٹیٹ بینک نے 18 مارچ 2024 کو اپنے آخری اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا تھا جو جون 2023 کے بعد سے یہی شرح ہے۔ سٹیٹ بینک اعداد و شمار پر مبنی اور مناسب طور پر سخت مانیٹری پالیسی مؤقف کے ذریعے 2025 کی دوسری ششماہی میں افراط زر کو 5-7 ، یعنی 2 فیصد کے درمیانی ہدف تک لانے کے لیے پرعزم ہے۔

مالی سال 22 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کا تقریباً 4.7 فیصد تھا۔ جاری کھاتے میں مارچ 2024 میں 619 ملین امریکی ڈالر سرپلس ریکارڈ کیا گیا جبکہ 2022 میں ماہانہ اوسط خسارہ 1.46 ارب ڈالر اور 2023 میں 0.19 ارب ڈالر تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پچھلے مہینے کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہے اور پچھلے 9 سالوں میں سب سے زیادہ ماہانہ سرپلس ہے۔

مجموعی طور پر مالی سال 24 کے 9 ماہ (جولائی 2023 سے مارچ 2024) کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس صرف 0.5 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 0.15 فیصد) کا خسارہ رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ خسارہ 4 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 1.15 فیصد) تھا۔

رپورٹ کے مطابق پالیسی اصلاحات میں جاری کوششیں تیزی سے غیر یقینی اور پیچیدہ بیرونی ماحول میں مجموعی مالیاتی ضروریات پر دباؤ کو کم کر رہی ہیں۔ اس بہتری کا اہم عنصر اشیاء میں تجارتی خسارے میں کمی ہے جس میں برآمدات اور اشیاء اور خدمات کی درآمدات دونوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن بنیادی آمدنی میں کمی کی وجہ سے آمدنی میں توازن بہتر ہو رہا ہے۔ان رجحانات کے ساتھ، توقع ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 24 میں پائیدار حد کے اندر رہے گا۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 کے جولائی تا مارچ کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس وصولیوں میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جولائی تا فروری خالص وفاقی محصولات میں 51 فیصد اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق اخراجات کے حوالے سے جولائی تا فروری مالی سال 2024 کے دوران مجموعی اخراجات میں 45 فیصد اضافہ ہوا جبکہ موجودہ اخراجات میں 46 فیصد اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ مارک اپ ادائیگیوں میں 59 فیصد اضافہ ہے۔ مالی سال 24 کے پہلے 8 ماہ میں پرائمری سرپلس (جی ڈی پی کا 1.7 فیصد) رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران یہ سرپلس 0.9 فیصد تھا۔

 رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں مجموعی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے 3.0 فیصد لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تھا۔

رپورٹ کے مطابق زراعت میں مضبوط نمو کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کے شعبے کی بحالی مالی سال 24 کے بقیہ مہینوں کے دوران جاری رہنے کی توقع ہے، جس سے اس شعبے میں مسلسل ترقی کی نشاندہی ہو رہی ہے۔

بیرونی اور مالیاتی استحکام اعتماد میں اضافہ کر رہا ہے اور معاشی بحالی میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ ایس بی اے کے اہداف پر سختی سے عمل درآمد اور دوسرے جائزے کے کامیاب اختتام کی توقعات نے سرمایہ کاروں کے مثبت رجحان میں اضافہ کیا ہے، جس کا مشاہدہ پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کی مضبوط کارکردگی سے بھی ہوا ہے۔پی ایس ایکس 22 اپریل 2024 کو ریکارڈ بلند ترین سطح پر بند ہوا۔

رپورٹ کے مطابق تمام مثبت پیش رفتوں کے باوجود حکام کو احساس ہے کہ پائیدار معاشی بحالی ایک دانشمندانہ پالیسی مؤقف پر ان کے وعدوں پر منحصر ہے، جس میں بیرونی مجموعی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بروقت اور مناسب مالی بہاؤ کی حمایت کی جاتی ہے۔

پاکستانی حکام ایس او ای اصلاحات اور نجکاری کے توسیعی ایجنڈے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکام آئی ایم ایف کے پروگراموں کی مدد سے کی جانے والی اصلاحات کے لیے پرعزم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام استعداد کار کی ترقی اور تکنیکی معاونت کی شکل میں فنڈ کی مدد کو بھی بہت سراہتے ہیں جس میں اب مانیٹری پالیسی، ٹیکس پالیسی، بجٹنگ اور قرضوں کے انتظام سے متعلق شعبے شامل ہیں۔

ایس او ای گورننس اور سماجی تحفظ کے شعبوں میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک پہلے ہی معاونت کر رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اور سوورن ویلتھ فنڈ (ایس ڈبلیو ایف) کا قیام حکومت میں وسیع بنیاد پر ادارہ جاتی ملکیت اور کوآرڈینیشن کو بڑھانے کے اقدامات ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکام ٹیکس جمع کرنے کی مشینری اور اداروں کی نجکاری میں بروقت ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں اور انسانی سرمائے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لچک دار بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لیے مالی گنجائش کو محدود کر چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ ایس بی اے کی تکمیل معاشی استحکام اور ترقی کی جانب ان کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس کی کامیاب تکمیل کی بنیاد پر حکام اس رفتار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے تقریباً 25 کروڑ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی حکام ایگزیکٹو بورڈ، انتظامیہ، عملے اور ہمارے دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے مسلسل تعاون کے منتظر ہیں۔