'ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر سول ملٹری معاملات ٹھیک نہیں، تعطل قائم ہے'

'ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر سول ملٹری معاملات ٹھیک نہیں، تعطل قائم ہے'
کامران یوسف نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر فواد چودھری کی آج کی ٹویٹ دراصل لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ معاملات ٹھیک ہیں، ابھی بھی تعطل قائم ہے۔

کامران یوسف نے کہا کہ یہ خارج از امکان نہیں کہ وزیراعظم عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھیجی گئی سمری کے باہر سے کوئی نام دے دیں۔

انہوں نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے معاملے میں عمران خان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کدھر لکھا ہے کہ اگر کسی جنرل نے آرمی چیف بننا ہے تو وہ کور کمانڈ کرے؟

یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پروگرام میں شریک توصیف احمد خان کا بھی کہنا تھا کہ بات تو یہ بھی نکلی ہوئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر کور کی کمان ہی مسئلہ ہے تو آئی ایس آئی کو ہی کور بنا دیتے ہیں، یہ مسئلہ بھی ختم ہوگا۔

توصیف احمد خان نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ بات انہوں نے نہیں کی ہوگی کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو یہ ایسا مذاق ہے کہ جس کے بعد پھر ان کے ہاتھ سے تو بات نکل جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر عمران خان کے موقف کے ساتھ ہوں لیکن اگر وہ یہ کہیں کہ یہ سب سویلین بالادستی کے لئے ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ہر وزیراعظم کو اپنا بندہ چاہیے کہ اگر وہ نہ ہوا تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا۔

مرتضی' سولنگی کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی سمری کے معاملے پر وزیراعظم کی کارروائی کا آئین وقانون سے کوئی تعلق نہیں، یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ یہ کل کو اس پر کہیں گے کہ دیکھیں جی ہم تو ڈٹ گئے۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ذاتی مفاد کی جنگ لڑی جار ہی ہے جسے کہا جا رہا ہے کہ یہ سویلین بالادستی کے لئے سویلین بمقابلہ ملٹری ہے لیکن واضح ہو کہ ایسا قطعی طور پر نہیں ہے، اس میں کوئی جمہوریت ہے نہ اصول یہ صرف ذاتی مفادات اور بقا کی جنگ ہے۔