پنڈ کا چودھری، مراثی اور مراثی کی دھوتی

پنڈ کا چودھری، مراثی اور مراثی کی دھوتی
کسی پنڈ کا چودھری اڑوس پڑوس کے دورے پر تھا۔ نہ جانے کیسے اس کی دھوتی چوری ہو جاتی ہے۔ شاید اس کے ہی مراثی کی کارستانی ہو۔ چودھری اپنے مراثی کی دھوتی پہن لیتا ہے۔ سٹیج سجا ہے۔ مراثی آ کر چودھری صاب کو کچھ یوں متعارف کراتا ہے:

اے ساڈے پنڈ دے بہت ہی وڈے چودھری، انہاں دیاں بڑیاں بڑیاں زمیناں تے فصلاں، گڈیاں تے نوکر چاکر۔ انہاں نے جیہڑا کرتا پایا ہویا اے، اے وی انہاں دا ہی اے۔ پر اے دھوتی میری اے! (یہ ہمارے گاؤں کے بہت بڑے چودھری۔ ان کی بہت بڑی بڑی زمینیں، بڑی بڑی فصلیں۔ بہت سی موٹریں نوکر چاکر۔ یہ جو انہوں نے کرتا پہنا ہوا ہے یہ بھی ان ہی کا ہے مگر یہ دھوتی میری ہے!)

چودھری کو بہت ہی غصہ آتا ہے کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ دھوتی اس کی نہیں۔ مراثی پیر پکڑ کر معافی مانگتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اگلی بار یہ غلطی نہ ہو گی۔

اگلا پنڈ آتا ہے۔ اسی طرح مراثی شروع ہوتا ہے۔

اے ساڈے پنڈ دے بہت ہی وڈے چودھری، انہاں دیاں بڑیاں بڑیاں زمیناں تے فصلاں، گڈیاں تے نوکر چاکر۔ انہاں نے جیہڑا کرتا پایا ہویا اے، اے وی انہاں ہی دا اے۔ تے اے جیہڑی دھوتی پائی اے او میری نہیں۔ او وی انہاں ای دی اے! (یہ ہمارے گاؤں کے بہت بڑے چودھری۔ ان کی بہت بڑی بڑی زمینیں، بڑی بڑی فصلیں۔ بہت سی موٹریں نوکر چاکر۔ یہ جو انہوں نے کرتا پہنا ہوا ہے یہ بھی ان ہی کا ہے اور یہ جو دھوتی انہوں نے پہنی ہوئی ہے یہ میری نہیں ہے، یہ بھی ان ہی کی ہے۔)

چودھری کو پھر بہت غصہ آتا ہے۔ وہ مراثی کو چار جوتے سر پر رسید کرتا ہے اور کہتا ہے کیا دھوتی کا ذکر کرنا ضروری ہے؟ مراثی پھر معافی مانگتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ اب کے کوئی غلطی نہ ہو گی۔

اگلا پنڈ بہت ہی اہم تھا۔ اس کا نام پینٹاگون ہے۔ ساری خلقت اکٹھی ہے اور مراثی اپنا راگ الاپنا شروع کرتا ہے:

'پنڈ دے بہت ہی وڈے چودھری۔۔۔ بڑی بڑی زمیناں تے فصلاں تے گڈیاں تے شملے۔ اے جیہٹرا کرتا تے اس دے نال زری والا کھسہ پایا اے اے وی انہاں دا آپنا اے۔ تے جیہڑی دھوتی پائی اے اس دا ذکر ہی کوئی نہیں!

آج کل ہر طرف دھوتی کا ہی ذکر ہے۔ ایک بیان آتا ہے پاٹے خان کی جانب سے کہ آرمی چیف کو گدی پر بٹھانا وزیراعظم کا حق ہے۔ پھر دانت توڑنے والا اپنا پلٹہ شروع کرتا ہے اور کہتا ہے پاٹے خان بکواس کر رہا ہے۔ یہ حق تو اس کا ہے۔ پھر شہہ اور مات والا شریف انسان کہتا ہے کہ آرمی چیف کی تخت نشینی میرٹ پر ہو گی۔ ان بڑے بڑے بھانڈ مراثیوں کے بعد پھر چھوٹے موٹے مراثی بھی اسی لے کا پلٹہ اپنی اپنی بھونڈی آواز میں شروع کر دیتے ہیں۔ چودھری سمجھتے ہیں کہ سالے مراثی ہیں بک بک کرنے دو۔ عوام کے لیے تفریح کا سامان پیدا کر رہے ہیں لیکن مراثی پیدائشی جینیئس ہوتا ہے۔ اس طرح بے عزت کرتا ہے کہ بے عزت ہونے والے کو لگتا ہے کہ اس کی عزت افزائی ہو رہی ہے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔