نوازشریف یا زرداری راندہ درگاہ ٹھہرے ہیں ۔تبدیلی ،نئی قیادت اور نیا پاکستان کے خالق عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے نوجوان نسل کو جنون ،سونامی ،ٹائیگر جیسے نام دیکر بدزبانی،گالم گلوچ ،تکرار،عدم برداشت کا ایک ایساسبق پڑھایا کہ سیاست کی طرح ہی بدل گئی۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا بھی پارلیمنٹ کے فلور پر غیرپارلمانی زبان بولنے سے نہیں ہچکچاتا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ ریاست ،پارلیمان اور سیاسی قیادت کے پاس اخلاقی بنیاد تمام ہوچکی ہے ۔
عوام کی کوئی سمت ہوتی ہے اور نہ ہی اجتماعی اخلاقیات کاکوئی تصور ہوتا ہے۔ عوام ایک ایسا ہجوم ہے جو جدھرکی ہوا چلے ادھر کو ہو لیتا ہے۔عوام کو سمت دینے کےلئے عوام میں سے کچھ عاقل بطور رہنما اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جو عوام کی رہنمائی کرتے ہیں کہ ادھر جانا ہے اور ادھر نہیں جانا، یہ غلط ہے اور یہ درست ہے۔عوام کے اندر پائی جانے والی اخلاقی کمزور یاں دور کی جاتی ہیں ۔
فرسودہ خیالات کی جگہ جدید اور تازہ فکر دی جاتی ہے۔عظیم چین کے ماوزئے تنگ ،نیلسن منڈیلا اور فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کی مثالیں زندہ و جاوید ہیں کہ انہوں اپنی اپنی قوم کو خواب غفلت سےجگا کرکیسے تعمیر کیا تھا۔ یہ ماضی قریب کا قصہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ جیسی قیادت ہوگی ویسی قوم ہوگی۔
تبصرہ کیے بغیر آج ہم پاکستان کے عوام عمران خان کی قیادت میں سفر کررہے ہیں ۔ سانحات کا رونما ہونا اور عوام کی اخلاقی کمزور یوں کا اظہار معمول ہے۔ جس پر عوامی ردعمل ہوتا ہے کہ سرعام پھانسی دی جائے۔ سخت سے سخت سزائیں تجویز کی جاتی ہیں یعنی وحشت وبربریت کےخلاف وحشت و بربریت سے نمٹا جائے۔عوام ایسا تب کہتے اور سوچتے ہیں جب قیادت ،ریاست اور حکومت خاموش ہوتی ہے۔ بصورت دیگر عوام بولتے ہی نہیں ہیں اور نہ ہی کچھ تجویز کرتے ہیں۔عوام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مجرم کو پھانسی دینے سے سانحات رک نہیں جائیں گے۔ وحشت کےخلاف وحشت کے استعمال سے امن نہیں آئے گا۔ امن تو امن کی بات کرنے سے ہی آئے گا اور قیادت کے فہم وتدبر سے ہی سانحات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔
عوام حق بجانب ہیں۔غم و غصے کا شکار ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت اظہار بھی کرتے ہیں۔ جس کا جو فہم ہے کہتا ہے۔ ایک فیس بک صارف نے تو پاکستان کی سالمیت تک کو چیلنج کیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے عوام بدترین اور سنگین نوعیت کے سانحات سے گزررہے ہیں۔ روک تھام ،مدوا نہ ہو تو عوام میں سے جذباتی لوگ ملکی سالمیت کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔ ریاست پر شک کرتے ہیں ۔
قیادت کا فقدان ہو اور ریاست اور حکمران بدمست رہیں تو نوبت خانہ جنگی تک بھی آجاتی ہے۔ عوام اپنے ہی وطن کےخلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جو آباواجداد نے لاکھوں قربانیوں کے عوض حاصل کیا ہوتا ہے۔ آگ اور خون کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ پھر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے۔ خاکم بدہن، حالات بہتر مستقبل کی نشاندہی نہیں کررہے ہیں۔
اصل مسلہ ریاست،حکومت اور سیاسی قیادت ہے کہ سانحات پر سانحات ہوتے جارہے ہیں مگر سیاسی قیادت کو خبر تک نہیں ہے کہ ملک کی اخلاقی بنیادیں منہدم ہو چکی ہیں۔ سانحات پر کوئی آل پارٹیزکانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کے خلاف علم بلند کرنے والے بھی ایسے سانحات پر یوم حیاکا انعقاد نہیں کرتے ہیں ۔اسلام آباد میں مندر کی تعمیر تو رکوا دی جاتی ہے۔ عورت مارچ کےخلاف غیرت ابل ابل جاتی ہے مگر سانحہ گجرپورہ پر مذمت تک نہیں کی جاتی ہے۔
حادثے سے بڑھ کر یہ سانحہ ہوا ۔ کوئی رکا نہیں حادثہ دیکھ کر