لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں واقع محکمہ سوشل ویلفیئر کے زیر انتظام کاشانہ کی سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو خط لکھ کر کاشانی سکینڈل میں انصاف کا مطالبہ کر دیا۔
سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے خط کے متن میں کہا کہ چائلڈ ایبوز مافیا کی جانب سے افسران کو ترقیاں دے کر فلاحی اداروں اور یتیم خانوں میں انچارج لگایا جاتا ہے۔ مجھے بھی ترقی دے کر سپرنٹنڈنٹ کاشانہ تعینات کیا گیا اور اس گھناونے کاروبار کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا۔
سابق سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ ان سے پہلے کاشانہ ممیں محکمہ سوشل ویلفیئر کے افسران اپنی ترقیوں اور پیسوں کے لیے عرصہ دراز سے چائلڈ ایبوز کا کاروبار کررہے تھے۔ یتیم لاواث بچیوں کے کاشانہ میں داخلے اور اخراج کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ کئی لڑکیاں کاشانہ کے حاضری رجسٹر میں تو موجود تھیں لیکن ادارہ سے غائب تھیں۔ کاشانہ کی ہر بچی کے لیے کھانے پینے، میڈیکل، تعلیم، بنیادی ضروریات، سرکاری و ڈیلی ویجز کے ملازمین کی تنخواہیں اور ادارے کے تمام اخراجات سرکاری بجٹ آنے کے باوجود خطیر رقم ڈونیشن کی صورت میں لی جاتی ہے جبکہ تمام رقوم کی بند بانٹ کی جاتی ہے۔ ڈونیشن کے نام پر معصوم یتیم اور لاوارث بچیوں کا جنسی کاروبار کیا جاتا ہے۔ جعلی شادیاں کروا کر بچیوں کو بااثر افراد کو فروخت کیا جاتا ہے۔ کئی بچیوں کو بیرون ملک بیچا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان سے پہلے کاشانہ میں تعینات سپرنٹنڈنٹ نے 2013 سے 2018 تک یتیم لاوارث لڑکیوں کی جعلی شادیاں کروائیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ یتیم بچیوں کو ڈونرز کے ساتھ کئی روز تک ادارے سے باہر ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسز میں بھیجا جاتا تھا اور جب بچیاں واپس لائی جاتی تھیں تو ان کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہوتی تھی اور ان کے جسم کے کئی حصے بری طرح زخمی ہوتے تھے۔ پرائیویٹ ڈاکٹرز کو بلوا کر انکی سرجریاں تک کروائی جاتی تھیں۔
خط میں لکھا کہ کاشانہ میں متاثرہ بچیوں کی جانب سے جنسی درندگیوں کی ایسی باتیں بتائی گئیں کہ بحیثیت ایک ماں اور عورت میری روح کانپ گئی۔ میں نے محکمہ ویلفیئر کے تمام غیر قانونی احکامات ماننے سے اس وقت انکار کیا جب محکمے کی جانب سے عنایات کی بارش کی جارہی تھی۔ مورخہ 12 جولائی 2019 کو سیکریٹری سوشل ویلفیئر عنبرین رضا کو تحریری درخواست بھی دی۔ کاشانہ کی یتیم بچیوں نے تما محکمانہ انکوائریز میں بیانات بھی ریکارڈ کروائے جن میں ان بچیوں نے جنسی کاروبار میں استعمال ہونے سے متعلق تمام تفصیلات بھی بتائیں۔
مزید کہا گیا کہ کاشانہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد دو لاوارث لڑکیوں اقرا کائنات اور ساجدہ کو قتل کر دیا گیا اور دیگر گواہ لڑکیوں کو بھی کاشانہ سے غائب کروا دیا گیا، جن کے بیانات تمام محکمانہ انکوائریز میں ریکارڈ تھے اور میڈیا پر بھی چلائے گئے۔
مورخہ 12 جولائی 2019 کو دی گئی تحریری درخواست کے بعد مجھ پر اور کاشانہ کی یتیم بچیوں پر زندگی تنگ کر ی گئی۔ سرکاری افسران اور عمران خان کے وزرا اپنے دفاتر میں بلا کر میری چادر کھینچے تھے اور جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یتیم بچیوں کے کھانے پینے کا بجٹ بھی بند کر دیا گیا۔
جنابِ عالی، صرف کائنات اور ساجدہ ہی نہیں ایسی سینکڑوں لڑکیاں ہیں جو کاشانہ ویلفیئر ہوم میں جنسی کاروبار میں استعمال کی گئیں، جن کو بیچ دیا گیا یا مار دیا گیا۔ یہ معاملہ صرف کاشانہ ہوم کا نہیں بلکہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے دوسرے فلاحی اداروں، دارالامانوں اور بچوں کے یتیم خانوں میں بھی جنسی کاروبار کا یہ بااثر مافیہ پوری طرح سرگرم ہے جس میں محکمہ عیفیئر کے افسرام ملوث ہیں۔ ان اداروں میں 10، دس سالوں تک ایک ہی افسر کو انچارج لگایا جاتا ہے جبکہ ان اداروں میں کوئی بھی انچارج چائلڈ ایبوز کے مافیا کو خوش رکھے بغیر ایک ماہ بھی کام نہیں کر سکتا۔
کائنات الیاس اور اس کے دو بہن بھائی مہک الیاس اور علی الیاس کو اغوا کر کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں لایا گیا اور والدین اور رشتہ دار ہونے کے باوجود انہیں لاوارث قرار دے کر چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور میں رکھا گیا جہاں ان تینوں کا بدترین جنسی استحصال کیا گیا۔ کائنات الیاس کو قتل کر دیا گیا جبکہ مہک اور علی الیاس تاحال لاپتہ ہیں۔ ممکنہ طور پر وہ بھی مارے جاچکے ہیں۔
درخواست گزار اور مدعی ہوتے ہوئے عمران خان کی حکومت اور سرکاری افسران نے مجھے خاموش کروانے کے لیے مجھے بد ترین تشدد اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ میرے شوہر پر متعدد جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات درج کروا کر کوٹ لکھپت جیل میں ڈیتھ سیلز میں قید کر دیا گیا۔ میرا گھر جلا دیا گیا اور غیر قانونی طور پر میری نوکری چھین لی گئی۔ آج میرے بچے میرے ساتھ دربدر ہیں۔ میرے بچوں کی تعلیم اور اچھی خوراک ختم کر دی گئی اور ان کے بنیادی حقوق صلب کر دیے گئے۔
خط کے اختتام میں استدعا کی گئی کہ آپ سے اپیل ہے کہ سراکری اور فلاحی اداروں، یتیم خانوں کی سخت ترین مانیٹرنگ کی جائے اور کاشانہ سکینڈل میں میرٹ پر انصاف کیا جائے۔ میں تمام تر حقائق کے بارے میں اعلٰی حکام اور چیف سیکریٹری پنجاب کو جولائی 2019 سے تفصیل سے لکھتی رہی ہوں۔ کاشانہ سکینڈل میں لاکھوں ثبوت ہیں۔ آپ کو چند انتہائی اہم ثبوت ارسال کررہی ہوں۔
سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کی جانب سے خط کے ساتھ کچھ دستاویزات بھی ارسال کی گئیں جن میں انکوائری آرڈرز سابق وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار (26 اگست 2019)، تحقیقاتی رپورٹ سیکریٹری سوشل ویلفیئر عنبرین رضا (25 جولائی 2019)، لیٹرز وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار اور چیف سیکریٹری پنجاب، کائنات کی فرانزک اور پوسٹمارٹم رپورٹ، تحریری درخواست بنام سیکریٹری سوشل ویلفیئر (12 جولائی 2019) اور 2013 سے 2018 تک ہونے والی جعلی شادیوں کی فہرست شامل ہیں۔
حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔