لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ معاملے پر ایف آئی اے کو سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کیخلاف تادیبی کارروائی سے روک دیا ساتھ ہی عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 فروری کو جواب بھی طلب کر لیا۔
جسٹس امجد رفیق نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی درخواست پر سماعت کی سابق ڈی جی ایف آئی کی طرف سے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ماڈل صوفیہ مرزا کے کیسز میں تحقیقات نہ کرنے کے الزام میں ایف آئی اے نے انہیں طلب کیا ہے۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ میں تینوں مقدمات میں براہ راست نامزد نہیں ہوں، مقدمات میں ماڈل صوفیہ مرزا کے سابق خاوند عمر فاروق ظہور کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرائل عدالت سے عبوری ضمانت کے بعد بھی تفتیش میں شامل ہو چکا ہوں۔
بشیر میمن کے وکیل نے 3 مقدمات کے علاوہ بھی ایف آئی اے کی جانب سے مقدمات بنانے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے استدعا کی کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت تمام مقدمات کی دستاویزات فراہم کی جائیں اور درخواست کے حتمی فیصلے تک ایف آئی اے کو تادیبی کارروائی سے بھی روکا جائے۔
تاہم عدالت نے درخواستگزار کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے ایف اے کو سابق ڈی جی کے خلاف کیس تادیبی کارروائی سے روک دیا۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن 2 جنوری 2022 کو بیرون ملک مالی جرائم میں مطلوب ملزم کی مبینہ سہولت کاری اور اس شخص کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات میں ناکامی پر انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
ملزم کی حوالگی میں مبینہ ناکامی پر وزارت خارجہ کے دو اہلکار بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ایف آئی اے لاہور کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
بشیر میمن ویڈیو لنک کے ذریعے ایف آئی اے پنجاب کے ڈائریکٹر ڈپٹی انسپکٹر جنرل محمد رضوان کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
ایف آئی اے کے سابق سربراہ سے عمر فاروق ظہور کے زیورخ اور اوسلو میں مالی جرائم کے دو مقدمات میں سہولت کاری اور بحیثیت ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے ان کے دور میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔
ذرائع کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران جب بشیر میمن پر جواب دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو وہ چلے گئے جس کے فوری بعد اجلاس ختم ہوگیا تھا۔
خیال رپے کہ بشیر میمن نے عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں متعدد بار مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں مریم نواز، نواز شریف کے خاندان اور شہباز شریف کے خلاف کیسز بنانے کا کہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو الزامات لگائے تھے یا جو باتیں کی تھیں، ان معاملات کی انکوائری کرنے کے بجائے الٹا ان پر ہی الزامات لگا دیے گئے۔
بشیر میمن نے کہا کہ ’آج کل لاہور میں جو منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا ہے یہ فائل بھی میرے پاس آئی تھی، میں نے فائل دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ کیس نہیں بنتا‘۔