وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں کرسمس کے ایک پروگرام میں اعلان کیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے جلد ہی قومی سطح پر ایک کمیشن (NCMR) کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس پر مسودہ قانون تیاری کے مراحل میں ہے۔ یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے لیکن اس سے پہلے کہ ایک اور انسانی حقوق کے کمیشن کے لئے قانون سازی کی جائے، ضروری ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود انسانی حقوق کے قومی اداروں کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لے لیا جائے۔
انسانی حقوق کا اولین ادارہ (NCSW)
1996 میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے قوانین میں عورتوں کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی حقوق اور ان کے نفاذ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں 1997 میں پارلیمنٹ کو ایک باضابطہ رپورٹ پیش کی گئی اور 2000 میں قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں (NCSW) کا قیام عمل میں آیا، جسے 2012 میں قانون سازی کے ذریعے مزید بہتر اور مضبوط بنیاد مل گئی۔
لہٰذا مسائل کی تحقیقات سے لے کر ایک مستقل، قانونی اور مشاورتی ادارہ کے قیام تک ایک منطقی اور مرحلہ وار سفر طے ہوا۔ اس مثال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں کو اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں کے مطابق مکمل آزادی اور اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ مالی وسائل، عملہ اور اختیارات محدود ہیں۔ لیکن اس کی قیادت کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں اس اولین انسانی حقوق کے ادارے نے کچھ کامیابی حاصل کر لی۔ جسٹس (ر) ماجدہ رضوی، سیدہ عارفہ، انیس ہارون، خاور ممتاز اور حال میں نیلوفر بختیار نے خواتین کے حقوق کے لئے قانونی، پالیسی فریم ورک اور تحفظ کے طریقہ کار میں بہتری لانے کے لئے غیر معمولی محنت کی۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR)
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے لئے 2012 میں قانون بنا اور 2015 میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے سندھ میں غذائی قلت اور بچوں کی اموات کے ساتھ ساتھ متعدد اہم مسائل کی تحقیقات کیں، جن میں اوکاڑہ ملٹری فارمز کے کسانوں کی شکایات، افغان مہاجرین اور جیلوں میں تشدد جیسے مسائل شامل تھے۔
اس کے صوبائی دفاتر، اس کی تقرری میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اور پارلیمنٹ کو براہ راست رپورٹنگ جیسی خصوصیات نے کمیشن کو تاحال سب سے زیادہ بااختیار انسانی حقوق کا ادارہ بنا رکھا ہے۔ سابقہ اور موجودہ کمیشنز نے اسے ریاستی انتظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ اس کے باوجود قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو بین الاقوامی پذیرائی کے فقدان کا سامنا ہے جو اس کی خود مختاری اور کارکردگی سے مشروط ہو گی۔
کمیشن کے پہلے دور (2015 تا 2019) میں اس کے ارکان یہ وضاحت دیتے پائے گئے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ایک 'ریاستی' ادارہ ہے نہ کہ حکومتی۔ غالباً اس کا مقصد کمیشن کے دائرہ کار کی وضاحت کرنا اور اس کے غیر جانبدار اور مستقل کمیشن ہونے کے عنصر پر زور دینا ہے۔ لہٰذا اعتماد سازی کے ذریعے مختلف سرکاری شراکت داروں اور کمیشن کے مابین حالاتِ کار اور بہتر ماحول کے لیے معتدل سطح کی کامیابیاں حاصل ہو گئیں۔
بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن (NCRC)
انسانی حقوق کے حوالے سے قائم ہونے والا ایک نیا ادارہ بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن (NCRC) ہے جس کے لئے قانون سازی 2017 میں ہوئی اور ادارہ 2020 میں تشکیل دیا گیا۔ اگرچہ پچھلی چند دہائیوں میں بچوں کے حقوق کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے لیکن کمیشن اپنے اہداف کی سمت صرف بنیادی کام کا اغاز کر پایا جبکہ یہ اپنا پہلا تین سالہ دور مکمل کرنے کو ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کو درپیش چیلنجز
تقرریوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے بجائے سیاسی قیادت نے 'موزوں' افراد کی تلاش میں تاخیر کی جس سے قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیلِ نو التوا کا شکار ہوئی۔ عام طور پر انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کیا جاتا رہا یا ان پر وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔ نتیجہ انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال میں نکلتا رہا۔
صوبوں نے انسانی حقوق کے ادارے بھی بنائے ہیں جن میں مختلف کمیشن، وزارتیں، بیورو اور محکمے شامل ہیں۔ نیز ٹریٹی ایمپلی منٹیشن سیل بھی بنائے گئے ہیں جن کا مقصد بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل کی اطلاع دینا ہے۔ اگر سیل کی رپورٹوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ ادارے وسائل، مہارت اور کارکردگی میں اپنے مقاصد سے کوسوں دور پڑے ہیں۔
معلومات تک رسائی کا حق
انسانی حقوق پر جواب دہی نظام کا اہم جزو ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ صوبوں اور وفاقی اداروں میں الگ الگ ادارے قائم ہوئے جن میں مرکز سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ تاہم معلومات تک رسائی کا حق کے نفاذ میں آر ٹی آئی کمیشنز کو بھی انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ عدم شفافیت ان مسائل میں سرِفہرست ہے۔
انسانی حقوق کے قومی اداروں کو حکومت اور حق داروں (عوام) کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے لیکن جب ان اداروں کو انتظامیہ کے تابع کر دیا جاتا ہے یا انتظامی امور میں الجھا دیا جاتا ہے تو یہ کام نہیں کر پاتے۔
انسانی حقوق کے اداروں کا تسلسل
اگر یہ تسلسل ہماری سیاست، اقربا پروری اور کرپشن کی نظر ہو جائے تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی ابھی نامکمل ہے۔ اقتدار کی منتقلی صوبائی دارالحکومتوں تک آ کے ٹھہر گئی ہے۔ لہٰذا ان اداروں کو اپنا وقت اور توانائیاں عوامی سطح تک پہنچانے میں دشواری ہوتی ہے جنہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تحفظ دینا ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ان متاثرین تک رسائی کے لئے انہیں سول سوسائٹی تنظیموں جن میں ذرائع ابلاغ اور غیر سرکاری ادارے شامل ہیں ان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ سرکاری سطح پر ان تنظیموں یا انسانی حقوق کے اداروں کے کردار کو شامل نہیں کیا جاتا۔
غیر جمہوری اور غیر شفاف طرز عمل کمیشن کے کردار اور اس کے کام کے دائرہ کار کو محدود کر دیتے ہیں۔ ریاستی نظام کا استحکام تقاضا کرتا ہے کہ سرکاری ادارے قانون کے تابع ہوں جبکہ انسانی حقوق کے اداروں کا کام ان کی نگرانی کرنا اور انہیں جوابدہ ٹھہرانا ہو۔ لیکن فرسودہ نظام کا پروردہ انتظامی ڈھانچہ ایک بحران کا علاج مزید بحران پیدا کر کے کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ نیز یہ انسانی حقوق کے اداروں کے اصلاحی کردار کو تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتا ہے۔ یوں انسانی حقوق کے اداروں کا اپنی ذمہ داریاں نبھانا دشوار تر ہو جاتا ہے۔ کئی افسرانِ شاہی انسانی حقوق کے اداروں کو ریاستی معاملات میں غیر ضروری مداخلت تصورکرتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے افسرشاہی کے کنٹرول میں رہیں۔ نتیجتاً اُن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ عام طور پر دفاتر کے حصول میں ایک سال اور تنخواہوں کی وصولی میں ایک سال سے زائد وقت صرف ہو جاتا ہے۔
تشکیل کے مسائل
یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہی کے لئے کون زیادہ موزوں ہے؛ سابق جج، بیوروکریٹس یا انسانی حقوق کے ماہرین؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری کام کا تجربہ اور پیشہ ورانہ مہارت اہم ہے تاہم ادارے کی تعمیر و ترقی اور فعالیت کے لئے ادارے بنانے اور قائدانہ صلاحیتوں کا ہونا بھی پیشِ نظر ہونا چاہئیے۔
تقرریاں ایسی ہوں جن سے انسانی حقوق کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی استوار کرنے میں مدد ملے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی تشکیل اور ٹیم کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ گزشتہ سالوں میں یہ بھی ہوا کہ انسانی حقوق کے اداروں کے کچھ اراکین نے یا انتظامی فیصلوں کے خلاف عدالتوں کا رخ کیا یا استعفیٰ دے دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیروز کے بجائے ٹیم میں کام کرنے والوں کو ترجیح ملنی چاہئیے۔
چونکہ یہ تقرریاں اکثر اوقات مالی طور پر منافع بخش ہوتی ہیں لہٰذا ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ان اداروں میں کافی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ تجربہ اور مہارت انسانی حقوق کے اداروں کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس عنصر کو تقرریوں پرحاوی نہیں ہونا چاہئیے۔
قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت (NCMR) کی تشکیل
قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت (NCMR) کے قیام کے لیے قانون سازی میں درج بالا چیلنجز سے نمٹنا ہوگا تاہم کچھ خاص نوعیت کے مسائل بھی ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کی کامیابی کیسے ممکن ہے؟
اول؛ 'اقلیت' کی اصطلاح کی تعریف و وضاحت کرنا ہوگی۔ فی الحال اس کا استعمال صرف مذہبی اقلیتوں کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔
دوئم؛ اسے ماہرینِ حقوق کا ادارہ ہونا چاہئیے نہ کہ بین المذاہب مکالمے یا اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی کا۔ قومی کمیشن برائے اقلیت کو کسی اور ادارے کے خیراتی کام سے کنفیوژ کرنا یا اس کی نقل کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
سوئم؛ اقلیتی کمیشن کو فقط اقلیتوں کا ادارہ ہونے کے بجائے اقلیتوں کے حقوق کے مؤثر نفاذ کا ادارہ ہونا چاہئیے۔ اس کمیشن کا سائز (حجم) بھی اتنا بڑا نہ ہو جو اسے کار کردگی سے محروم کر دے۔
چہارم؛ اقلیتی ادارہ ہونے کے ناطے اسے منفی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے مجوزہ اقلیتی کمیشن کے لئے قانون سازی کرتے وقت اضافی اختیارات یا متبادل گنجائش رکھی جائے تا کہ اس کے مقاصد کے حصول اور دائرہ کار میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ نیز ریاستی سطح پر اس کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
پنجم؛ ایک طرف اقلیتوں کی پسماندگی اور حقوق کا غیر مؤثر نفاذ اور دوسری جانب وسائل اور رسائی کا محدود ہونا۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر مجوزہ کمیشن عوامی مفاد پر کام کرنے والا مضبوط ادارہ بن سکتا ہے اگر اس کے تشکیلی قانون میں سینکڑوں فعال کارکنوں یا رضاکاروں کو شامل کرنے کی گنجائش ہو تا کہ عوام کو حقوق کی رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ ابتدائی طور پر مذہبی اقلیتوں مگر بالآخر انسانی حقوق کے دیگر اداروں کو بھی ایسا کرنا پڑے گا۔
بالآخر حقوق کے فریم ورک میں اقلیتوں کی شمولیت کو گروہی حقوق کے دائرے سے آگے سب کے لیے حقوق اور یکساں انصاف تک بڑھانا پڑے گا۔
اس بات کو سمجھ لینا چاہئیے کہ نیا کمیشن چند مراعات لینے کا نہیں، ریاستی نظام میں اصلاح کا ذریعہ بننا چاہئیے۔ نیز تمام شراکت داروں بالخصوص غیر سرکاری تنظیموں کو سخت محنت کرنا ہوگی۔
پیٹر جیکب نیشنل کریکولم کونسل کے رکن، سپریم کورٹ میں، ادارہ برائے سماجی انصاف کے نمائندہ، ریسرچر اور فری لانس اخبار نویس ہیں ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے jacobpete@gmail.com