”توسیع کے لیے خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کی اصطلاح مبہم ہے“

”توسیع کے لیے خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کی اصطلاح مبہم ہے“
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے فوج کے کمانڈر انچیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا جاری شدہ نوٹیفیکشن معطل کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید عدالتی سماعت بدھ ستائیس نومبر کو ہو گی۔

ماضی میں ایسے فیصلے کی نظیر نہیں ملتی

سینئر کورٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے نیادور سے گفتگو میں کہا کہ آج کی سماعت خاصی اہم تھی، سماعت کے دوران کئی اہم باتیں ہوئیں، ایک موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ آئین میں تو دوبارہ تعیناتی کا تصور ہی نہیں عدالت کے مطابق فوجی قوانین کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  اٹارنی جنرل نے جب عدالت کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری ریجنل سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے، تو عدالت عظمی نے کہا کہ اس میں سیکیورٹی صورتحال کی اصطلاح جو استعمال کی گئی وہ مبہم ہے، مسلح افواج کسی بھی خطرے کی صورت میں باڈی کے طور پر کام کرتی ہیں، کوئی اکیلا کام نہیں کرتا، اگر یہ روایت ڈالی گئی تو پھر مسلح افواج کا ہر شخص اہم ہے اس کی مدت میں توسیع کرنا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے اس معاملے پر کوئی رائے نہیں دی اور 25 ارکان میں سے 11 اس کے حق میں تھے جبکہ 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔

کیا کوئی اور اس قابل نہیں؟ 

سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے نیادور سے گفتگو میں  کہا کہ آرمی چیف نے بہرحال مدت ملازمت پوری کر لی ہے، توسیع دینا یا نہ دینا حکومت کا معاملہ ہے تو تیسری دفعہ بھی ایکسٹینشن دینے میں کیا حرج ہے، اگر حالات سنگین بھی ہیں تو کیا کوئی اور اس قابل نہیں ہے کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف بن سکے، سسٹم کی بقاء کے لیے ایکٹیشن کی بجائے روٹین میں معاملات چلنے چاہیے ایک آرمی کو اللہ نے عزت دی تو اسے چاہیے کہ مدت ملازمت پوری کرے اور ریٹائرمنٹ انجوائے کرے۔

<حکومت نےمعاملے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا

سینئر صحافی ضیا الدین نے کہا کہ یہ تو حکومت کی نالائقی ہے، حکومت نےمعاملے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، ایکسٹینشن کا فیصلہ ہونا ہے تو کل ہی ہو گا، یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے گہرے اور دیرپا اثرات ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے بھی معاملے میں غلطی اور لاپرواہی کا ارتکاب کیا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے جو 19 اگست 2019 کو جاری کیا گیا تھا اور اس کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کو 3 سال کی توسیع دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار ہی نہیں یہ تو صدر مملکت کا استحقاق ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا ہنگامی ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔