کراچی کا قدیم ایرانی کیفے خیرآباد دو تہذیبوں کا مشترکہ ورثہ ہے

کراچی میں رہ جانے والے اب گنتی کے ان ایرانی کیفیز میں سٹیل کی کیتلی میں ملنے والی گرما گرم چائے ہو یا ایرانی چلو کباب، یہ آج بھی شہریوں کو ان ذائقوں سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ان کیفیز نے نہ صرف دو مختلف تہذیبوں اور روایات کو جوڑ کر رکھا ہے بلکہ یہ ریستوران روشنیوں کے شہر کراچی کے شاندار ماضی کا عکس بھی ہیں۔

کراچی کا قدیم ایرانی کیفے خیرآباد دو تہذیبوں کا مشترکہ ورثہ ہے

کراچی صدر کے علاقے میں ایرانی کیفے کی ایک دلچسپ تاریخ ہے جو 19 ویں صدی کے اواخر سے شروع ہوئی جب ایرانی تارکین وطن برصغیر پاک و ہند میں پہنچے۔ وہ اپنے ساتھ ایک پکوان کی روایت لے کر آئے جس میں فارسی اور ہندوستانی ذائقوں کو ملایا گیا۔ اس سے ذائقے کا ایک انوکھا اور دلچسپ امتزاج پیدا ہوا۔ مزید براں، وقت گزرنے کے ساتھ یہ کیفے سماجی تانے بانے کا ایک لازمی حصہ بن گئے جو دانشوروں، ترقی پسند مصنفین، صحافیوں اور عام لوگوں کے لیے اجتماعی مقامات کے طور پر کام کرتے۔

1960 اور 70 کی دہائی میں کراچی کے متوسط طبقے کے لئے کھانے کی پہلی پسند پہلوی، خیرآباد ٹی شاپ، کیفے سرتاج ،کیفے گلوریا، کیفے گلزار اور کیفے پیراڈائز ہوتے تھے۔ جبکہ کیفے شیزان، لبرٹی اور پائنیر، وکٹوریا، انڈین کافی ہاؤس، ایسٹرن اور فیڈرک کیفے ٹیریا امرا کی اولین پسند تھے۔ اب ان میں سے بیشتر اپنا وجود کھو چکے ہیں اور کچھ آخری نشانی کے طور پر اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔

اولڈ سٹی ایریا میں آئی آئی چندریگر روڈ پہ واقع کیفے خیرآباد کی بنیاد 1932 میں ایرانی نژاد تاجر پیمان علی نے رکھی، جس کا تعلق ایران کے علاقے یزدان سے تھا۔ اب ان کی چوتھی نسل اس ٹی شاپ کو چلا رہی ہے جس کے منتظم عباس علی ہیں۔ عباس علی نے بتایا کہ خیرآباد کا نام میرے پردادا نے ایرانی گاؤں کے نام پر رکھا تھا۔ وہ 1932 میں کاروبار کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ کراچی شہر ان کو بھا گیا اور وہ مستقل طور پہ یہاں آباد ہو گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 1960 سے 1970 کی دہائی میں ایرانی ہوٹلوں کی تعداد 100 سے بھی اوپر تھی جس میں کھانے کے ہوٹلوں کے ساتھ ٹی شاپ، ملک شاپ اور بیکریز شامل ہیں۔ ان میں سے اب 10، 15 ہوٹل ہی رہ گئے ہیں جو شہر کے اولڈ سٹی ایریا میں موجود ہیں۔ ان میں کیفے مبارک، خیرآباد ٹی شاپ، کیفے درخشاں، چلو کباب سیستانی، پہلوی ریستوران اور کیفے وکٹری نمایاں ہیں۔

ان کیفیز کی سب سے خاص بات ان کی پرانی تزئین و آرائش ہے، جس میں لکڑی کا فرنیچر، قدیم طرز کا فن تعمیر، بڑے روشندان، ان کے برتن اور مخصوص انداز کی ماربل اور گلاس کی میزیں، لکڑی کی کرسیاں اور سحر انگیز پر سکون ماحول خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ صاف ستھرے ماحول کے ساتھ ساتھ کیفے کے مالک کی مسکراہٹ اور ویٹروں کی خوش اخلاقی بھی ان ہوٹلوں کی منفرد پہچان ہے۔

خیرآباد ٹی شاپ پر آنے والے زیادہ تر دفاتر کے لوگ ہوتے ہیں جو اطراف سے لنچ بریک میں یہاں آتے ہیں۔ خیرآباد کا لنچ مینیو پاکستانی کھانوں اور ایرانی ذائقوں کا خوبصورت امتزاج ہے جس میں بھنڈی اچار، بھنڈی گوشت، چکن لچھا، بکرے کا مغز فرائی، مچھلی مصالحہ، پالک گوشت اور جھینگا فرائی نمایاں ہیں۔ یہاں آنے والوں میں اکثریت سندھ ہائیکورٹ، سندھ سیکرٹریٹ، پرائیویٹ دفاتر کے ملازمین اور صحافی حضرات کی ہوتی ہے۔ عباس علی کا کہنا تھا کہ روزانہ یہاں 1000 سے اوپر گاہک آتے ہیں۔ انہیں یہاں کی چائے، کیک، سموسے اور ایرانی کھانے پسند ہیں۔ ٹی شاپ ہفتے کے 6 دن کھلا رہتا ہے، صرف اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ یہ صبح 6 بجے کھلتا ہے اور رات 8 بجے تک چائے کے شائقین کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔

خیرآباد کیفے پر بیٹھے ایک ضعیف العمر وکیل نے بتایا کہ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے اس ٹی شاپ پر آ رہے ہیں۔ کورٹ کے کام سے وقفے کے بعد چائے پینے کی تسکین جو یہاں حاصل ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہاں کے پرسکون ماحول میں کبھی کبھار ہم دفتری اُمور بھی یہیں بیٹھ کر نمٹا لیتے ہیں۔

خیرآباد کیفے کے مالک عباس علی کے مطابق یہ ان کی آخری نسل ہے جو اس کام کو سنبھال رہی ہے کیونکہ نئی نسل نے اس کام میں دلچسپی نہیں لی۔ کچھ لوگ بیرون ملک چلے گئے اور کچھ واپس ایران چلے گئے ہیں۔

کراچی میں رہ جانے والے اب گنتی کے ان ایرانی کیفیز میں سٹیل کی کیتلی میں ملنے والی گرما گرم چائے ہو یا ایرانی چلوکباب، یہ آج بھی شہریوں کو ان ذائقوں سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ان کیفیز نے نہ صرف دو مختلف تہذیبوں اور روایات کو جوڑ کر رکھا ہے بلکہ یہ ریستوران روشنیوں کے شہر کراچی کے شاندار ماضی کا عکس بھی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کی اسلامائزیشن شروع ہونے سے پہلے رات کی بھرپور زندگی ان کیفیز سے وابستہ تھی۔ لکھاریوں، دانشوروں، صحافیوں اور آرٹسٹوں کے لیے یہ کیفیز پرسکون آماج گاہیں تھیں لیکن دن بہ دن بڑھتی ہوئی آبادی، سکیورٹی خدشات اور انتہاپسندی کی آگ نے اس شہر کے ساتھ ساتھ ان کیفیز کو بھی بے حد متاثر کیا۔ بس اب اُمید ہی کی جا سکتی ہے کہ باقی بچے ہوئے اس تاریخی ورثے کو آنے والی نسلیں بھی دیکھ سکیں۔