Get Alerts

پنجاب کا ثقافتی تہوار لوہڑی جو دُلے بھٹی کی یاد میں منایا جاتا ہے

لوہڑی ہمیں پنجاب کے سورما دُلا بھٹی جس کا اصل نام عبداللہ بھٹی تھا، کی یاد دلاتی ہے جب اس نے ایک برہمن پنڈت کی دو بیٹیوں سُندری اور مُندری کو اس وقت کے حاکموں یعنی مُغلوں سے چھُڑوایا تھا اور ایک جنگل میں خود آگ کا الاؤ جلا کر ان کا بیاہ ان کی مرضی کے لڑکوں کے ساتھ کروایا تھا۔

پنجاب کا ثقافتی تہوار لوہڑی جو دُلے بھٹی کی یاد میں منایا جاتا ہے

پوری دنیا کی آزاد قومیں اپنے تہوار مناتی ہیں۔ ان میں سے کچھ مذہبی جبکہ کُچھ ثقافتی ہوتے ہیں۔ پنجاب کی بات کی جائے تو انگریز کے آنے سے بہت پہلے ایک سیکولر پنجاب نظر آتا ہے کہ جس میں تمام مذاہب کے لوگ مل جُل کر رہ رہے تھے۔ پنجابی قوم کا ذریعہ معاش ہمیشہ سے ہی کھیتی باڑی رہا ہے۔ دنیا بھر کی عظیم ثقافتیں دریاؤں کے کنارے ہی پنپی ہیں۔ پنجاب کے پاس بھی ایک زمانے میں سات دریا تھے اور یہ سپتا سندھو کہلاتا تھا۔ دو دریا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک ہو گئے یا رستہ بدل گئے۔ ان میں سے ایک دریا سرسوتی جبکہ دوسرا ہاکڑا کہلاتا تھا۔ دھرتی سے جُڑت نے اس خطہ کے انسانوں کو موسموں اور آب و ہوا سے پیار سکھایا۔ پنجابی اپنی فصلوں سے جُڑے تہوار مناتے ہیں۔

موسم گرما میں گندم کی کٹائی پر وساکھی جبکہ سردیوں میں کماد کی فصل گھر آنے پر لوہڑی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اسی طرح بسنت بھی پنجاب کا ایک خوبصورت تہوار تھا جسے قتل کر دیا گیا۔

لیہندے یعنی پاکستانی پنجاب میں یہ تہوار تقسیم کے بعد تک منائے جاتے رہے جب تک کہ ضیاء الحق کی آمریت نہ آن پہنچی اور ہر ہر شے کو مذہب کی عینک لگا کر دیکھا جانے لگا۔

لوہڑی ہمیں پنجاب کے سورما دُلا بھٹی جس کا اصل نام عبداللہ بھٹی تھا، کی یاد دلاتی ہے جب اس نے ایک برہمن پنڈت کی دو بیٹیوں سُندری اور مُندری کو اس وقت کے حاکموں یعنی مُغلوں سے چھُڑوایا تھا اور ایک جنگل میں خود آگ کا الاؤ جلا کر ان کا بیاہ ان کی مرضی کے لڑکوں کے ساتھ کروایا تھا۔

چونکہ عبداللہ بھٹی کو ہندو رسوم و رواج کے مطابق شادی کا طریقہ نہ آتا تھا لیکن پھر بھی اگنی کو ساکشی مان کر سات پھیرے لیے گئے اور ایک سیر شکر جہیز میں دُلے بھٹی نے اپنی منہ بولی بیٹیوں کو دی۔

روایت کے مطابق اس وقت دُلے نے یہ اشعار پڑھے؛

سُندر مُندریے 

نی تیرا کون وچارا

دُلا بھٹی والا

دُلے نے دھی ویاہی

سیر شکر پائی

کُڑی دا لال پٹاکا

کُڑی دا سالو پاٹا

سُندر مُندریے

نی تیرا کون وچارا

یعنی اے سُندری اور مُندری، تمہارا غم خوار اور سر پر دستِ شفقت رکھنے والا کون ہے؟ کوئی اور نہیں بلکہ دُلا بھٹی ہے۔ اس وقت جنگل میں بیٹیوں کو دینے کے واسطے کچھ نہیں لیکن میں ایک سیر شکر دے رہا ہوں۔ لڑکی کی چادر پھٹی ہوئی ہے جو اس کی غربت کا پتہ دیتی ہے لیکن عبداللہ بھٹی تمہارا رکھوالا ہے اور ظلم کے خلاف کھڑا ہے۔

پاکستان میں یہ تہوار دیگر کئی تہواروں کی طرح ختم ہو چکا ہے لیکن پچھلے 8، 10 برسوں سے لاہور کے پنجابی سیوک اپنے تئیں اس کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب کے یہ بیٹے، بیٹیاں اور بزرگ اپنے گھروں تک میں اس تہوار کو مناتے رہے ہیں۔

گذشتہ شب یعنی 13 جنوری 2024 کو بھی پنجابی سیوک اپنی مدد آپ کے تحت لوہڑی کا تہوار مناتے رہے۔ اس تہوار میں سرکار کی معاونت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سال کی لوہڑی اگرچہ ایک سرکاری ادارے 'پلاک' کے احاطے میں منائی گئی لیکن اس کا تمام تر خرچہ پنجابی زبان کی ادبی تنظیموں 'پنجابی سنگت پاکستان'، 'پنجابی پرچار'، 'لوک سار' اور دیگر پنجابی سیوکوں نے برداشت کیا۔

تمام شعبہ ہائے زندگی کے شہریوں کو اس تہوار میں مدعو کیا گیا۔ ایک بڑی تعداد میں عورتیں، مرد، بچے اور بزرگ شامل ہوئے۔ آسٹریلیا سے آئے کُچھ سِکھ پنجابی بھی اس میں شامل تھے جو اس بات کی یاد دلا گیا کہ عام پنجابی مذہب کے نام پر آپس میں بیر نہیں رکھتے۔ اس تہوار میں پنجابیوں کے تمام بڑے مذاہب یعنی اسلام، ہندومت، سکھ مت اور مسیحیت کی نمائندگی تھی۔

پنجابی سیوک اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہم وادی سندھ کی تہذیب سے جُڑے ہیں اور موجودہ پنجاب اور سندھ مل کر یہ تاریخی علاقہ بناتے ہیں۔

لاہور میں موجود دو سندھی سیوک ہر طرح سے پنجاب اور سندھ کی سانجھ بڑھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان میں ایک چانڈیو انور عزیز ہیں جبکہ دوسرے اشوک کمار ہیں۔ ان دو کے علاوہ بھی کچھ سندھی اس پنجابی تہوار کا حصہ ہوئے۔

اس تہوار کو منانے کی اصل وجہ دُلے بھٹی کو یاد کرنا ہے کہ جو ظلم کے خلاف کھڑا ہوا، زراعت اور کسانی مُدعے کو یاد رکھنا ہے کہ موجودہ دور میں شوگر مل مافیا کیسے عام کسان سے ناانصافی کرتا ہے۔ سانجھے چولھے کو آگ کا الاؤ روشن کر کے یاد کرنا، سردی یا سیال کو منانا ہے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ یہ دھرتی پرکھوں کی امانت ہے اور اسے اگلی پیڑھیوں تک اصل حالت میں پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ عورتوں پر ظلم کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور پنجاب کا ہر جوان دُلے بھٹی کی طرح ظلم کے خلاف لڑے گا۔

پنجاب اپنی سرکار سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس تہوار کو سرکاری سطح پر بھی منایا جائے تاکہ صوبے کو مذہبی جنونیت سے نکال کر امن کی طرف لے جایا جا سکے۔