Get Alerts

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ عوامی مزاحمت کا نیا استعارہ بن چکی ہیں

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک آواز پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ بازار اور شاہراہیں بند کر دیتے ہیں۔ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے عام بلوچ کو اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ عوامی مزاحمت کا نیا استعارہ بن چکی ہیں

تحریکوں میں عورتوں کا کلیدی کردار نظر آتا ہے۔ جب تک جدوجہد اور تحریکوں میں دونوں اصناف ایک ساتھ نہیں ہوں گے تب تک کامیابی کی امید یا مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ایک سراب ثابت ہو گا۔ بلوچ قومی تاریخ میں عورتوں کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ مسلح مزاحمت ہو یا جنگیں، بلوچ خواتین نے بھی مردوں کے ساتھ اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ان تاریخ ساز کرداروں میں مائی بیبو، بی بی زینب، گل بی بی، بانڑی و دیگر کئی قابل ذکر نام شامل ہیں۔ جبکہ جدید بلوچ تاریخ و تحریک میں شکر بی بی سے لے کر کریمہ بلوچ تک ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جو سیاست، تنظیم کاری اور عوامی موبلائزیشن کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں نمایاں کردار کی حامل رہی ہیں۔ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت دیگر بلوچ خواتین کو اپنا کردار ادا کرنے میں مدد ملی ہے۔ ان میں سے ایک اہم کردار ڈاکٹر مہرنگ بلوچ ہیں جو اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین کی امنگوں کی ترجمان اور جدوجہد کی شناخت بن گئی ہیں۔ وہ ایک بہت بڑی عوامی تحریک کی روح رواں ہیں۔ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے بلوچستان میں عوامی مزاحمت کو ایک جدید شکل دی ہے۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ جدید بلوچ سیاست اور عوامی جدوجہد کی ایک نئی مزاحمتی علامت ہیں جن کے پاس ایک شاندار سیاسی میراث موجود ہے، جو اسے اپنے والد کی سیاسی تربیت اور اپنی پیش رو خواتین کی تاریخ ساز جدوجہد سے ملی ہے۔ دوسری طرف انہیں پختہ اور تجربہ کار عوامی تحریک بھی میسر ہے جو گذشتہ دو دہائیوں کے ریاستی جبر سے گزر کر پختگی اور پھیلاؤ کے اس اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں اسے ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور سمی بلوچ جیسی جرات مند اور بہادر قیادت ملی ہے۔

تحریکیں لیڈروں کو جنم دیتی ہیں، انہیں منظرعام پر لا کر نکھارتی ہیں اور انہیں اتنا باشعور اور جُرات مند بنا دیتی ہیں کہ وہ تبدیلی یا انقلاب کی قیادت کی اہل ہو سکیں۔ قائد قیادت اور تحریک کے درمیان ایک جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے۔ معروض اور معروضی عنصر ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تاریخ کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ یوں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے اپنا یہ سفر 2006 میں اس وقت شروع کیا جب اس کے سامنے اس کے والد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ بعدازاں اس کے اکلوتے بھائی کو بھی اس اذیت سے گزرنا پڑا۔ اس غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک نے ڈاکٹر مہرنگ کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ یوں انہوں نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور یہ تحریک اسے ایک بیٹی سے ایک سرگرم کارکن اور ایک نڈر اور بہادر قائد کے روپ میں سامنے لے آئی۔

گذشتہ 18 سالوں کی جہد مسلسل سے وہ بہت کچھ سیکھ کر سیاسی اور تنظیمی حوالے سے کافی پختہ ہو چکی ہیں۔ اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے سے انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اس حوالے سے وہ کافی سیکھ چکی ہے اور ایک نڈر اور بہادر لیڈر اور بہترین منتظم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ اس وقت اس کی قیادت میں ایک منظم عوامی مزاحمتی تحریک ریاستی مظالم کو چیلنج کر رہی ہے۔ وہ لاکھوں لوگوں کی توانا آواز بن چکی ہیں جبکہ اسے بلوچستان کے جیّد سیاسی قائدین و رہنماؤں اور بڑے بڑے طاقتور قبائلی سرداروں اور نوابوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ اس کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک کال پر ہزاروں کے حساب سے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ بازار اور شاہراہیں بند کر دیتے ہیں۔ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثال 27 جنوری کا احتجاجی جلسہ عام تھا جسے کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ عام کہا جاتا ہے۔

انہوں نے 28 جولائی کو گوادر میں ایک تاریخ ساز بلوچ اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جب گذشتہ دنوں کوئٹہ میں لاپتہ ظہیر بلوچ کی ریلی پر پولیس نے بلوچ خواتین اور بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تو ایک بار پھر ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں اس کی تنظیم نے اس ریاستی بربریت کے خلاف عوامی مزاحمت کو منظم کر دیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ اس کی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست ہی تھی کہ انہوں نے واقعہ تربت کو اسلام آباد تک پھیلا کر اسے ایک بہت بڑی عوامی قوت کی شکل دے دی۔ اسے ہر بلوچ کے گھر تک پہنچایا۔ عام بلوچ کو بھی اس تحریک سے جوڑ دیا۔ بلوچوں کو ایک نئی آواز دی۔ انہیں جگایا بلکہ اب اس کی آواز کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ انہوں نے شہر اقتدار میں بیٹھ کر نہایت احسن طریقے سے اس عوامی مزاحمتی تحریک کو کمانڈ کیا اور ایک ایسی اعصابی جنگ لڑی جس سے حکمرانوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ مکمل حواس باختہ ہو کر معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھاتے رہے۔ حکومتی و سرکاری بیانیے سے لے کر جوابی سرکاری دھرنے تک یہ تمام حربے اور ہتھکنڈے ناصرف ناکام رہے بلکہ حکمرانوں کے لئے مزید شرمندگی اور سُبکی کا باعث بن گئے۔ ان کا عوام دشمن اور بلوچ دشمن کردار مزید بے نقاب ہو گیا۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور نظریے کی بنیاد پر طاقتور قوتوں کو للکار رہی ہیں۔ اسے سیاست کے رموز سے واقفیت اور معاملات پر دسترس حاصل ہے۔ وہ تقریر اور گفتگو کی ماہر ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرنا، صحافیوں کے چبھتے ہوئے سوالات کے جوابات دینا، سرکاری وفود اور سکیورٹی اہلکاروں کو خوش اسلوبی سے ڈیل کرنا، اپنے کارکنوں کو نظم و ضبط کے دائرے میں رکھنا اور سب سے بڑھ کر خود نمائی سے دور رہنا، غصے اور جذبات پر قابو پانا، جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا اور نظریے کے ہتھیار سے مقابلہ کرنا، ریاست کو سبوتاژ کرنے کا جواز فراہم نہ کرنا، مشاورت اور قیادت سے تحریک کو کمان کرنا؛ یہ سب اس کی امتیازی قائدانہ صلاحتیں ہیں جو اس تحریک کی امتیازی خصوصیات ہیں اور کامیابی کی بھی ضامن ہیں۔

حالیہ تحریک ماضی کی بلوچ تحریکوں سے کافی مختلف نوعیت کی ہے جہاں ایک عام بلوچ لڑکی کی قیادت میں بلوچ خواتین نے جرات، حوصلے اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہراول کردار اور ترقی پسندانہ مؤقف سے ریاستی جبر کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے، وہاں اس تحریک نے عوامی و قومی شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس نے ریاست کے خوف کے بت کو توڑ دیا ہے۔ جبکہ عورتوں کی قیادت و شراکت اور سوشل میڈیا کی طاقت نے اس عوامی تحریک کو مجتمع کرنے میں مزید کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یہ تحریک اپنی قائد ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں ریاستی جبر کا جاندار اظہار ہے جس نے ناصرف کوہ باتیل سے لے کر کوہ سلیمان تک بلوچوں کو متحد کر دیا ہے بلکہ پاکستان کے مظلوم طبقات اور محکوم اقوام سمیت پوری دنیا میں اپنے لیے ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ اب اس تحریک نے پاکستان بھر کے مظلوم و محکوم اقوام کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی شکل اختیار کی ہے اور انہیں بولنے اور مزاحمت کرنے کی طاقت دی ہے۔ اب وہ سب کی توانا آواز بن چکی ہیں۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ یہ جنگ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے لڑ رہی ہیں جو کتنے ہی عرصے سے ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ اس لیے یہ تحریک اقتدار، کرسی اور مراعات کے لیے نہیں بلکہ یہ صرف حکمرانوں اور طاقتور قوتوں سے زندہ رہنے کا آئینی، دستوری اور انسانی حق مانگ رہی ہے۔ اس کا بنیادی نعرہ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی اور تحفظ ہے اور اس کا ذریعہ عوامی مزاحمت اور پُرامن جدوجہد ہے۔

گذشتہ احتجاج، مارچ اور دھرنے کے دوران جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا وہ اس کی اعلیٰ سیاسی تربیت و عمل، تہذیب و ثقافت کا مظہر تھا۔ جدوجہد بہت کچھ سکھا دیتی ہے جیسے کہ دنیا کی انقلابی تحریکوں میں نظم و ضبط کی جو مثالیں قائم کی گئی ہیں ایسے ہی بلوچ قومی تحریک کی دہائیوں پر محیط جدوجہد نے نظم و ضبط، قربانی، اعتماد، شکتی، تعمیری و نظریاتی بحث و مباحثے اور جڑت جیسی اقدار کو اس خطے کے طالب علموں اور نوجوانوں کے رگ و پے میں شامل کر دیا ہے۔

چونکہ ریاست کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی، وہ اپنی پرانی روش پر قائم ہے اس لیے ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں اس عوامی مزاحمتی تحریک نے بھی ایک لمبی لڑائی لڑنے کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ اسلام آباد سے واپسی پر 27 جنوری کو کوہِ چلتن کے دامن میں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے بلوچ قوم کے سامنے جو تاریخی خطاب کیا وہ انتہائی غور طلب اور معنی خیز تھا۔ وہ ناکام نہیں لوٹے ہیں بلکہ اپنے بنیادی سیاسی اہداف حاصل کر کے ہی لوٹے ہیں۔ ریاست کا کردار اور بلوچستان میں جاری جبر و تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کو دنیا بھر کے سامنے لانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ انہوں نے جو کام کرنا تھا وہ کر کے دکھا دیا۔ عوامی مزاحمت کا جو علم بلند کیا ہے وہ اب سرنگوں نہیں ہو گا۔ اس کے اطراف میں جو نوجوان، خواتین اور بچیاں حصار بنا کر کھڑی ہیں وہ اس عَلم کے اصل محافظ اور وارث ہیں۔ وہ اسے زمین بوس نہیں ہونے دیں گے۔ اب یہ لڑائی اپنے اصل اہداف کے حصول تک جاری رہے گی۔