امریکہ کے پورٹ لینڈ میں 30 اکتوبر 1926 میں ولیم کلارک جس کی عمر تقریباً چہتر سال تھی انہیں جبری طور پراُس وقت گمشدہ کیا گیا جب وہ اپنی بیٹی کی ہاں بذریعہ بس جا رہی تھی۔ ان کی گرفتاری کی اطلاع دینے کے لیے حکومت نے اُس وقت سو ڈالر معاوضے کا اعلان کیا تھا جو آج کے کرنسی ریٹ کے مطابق ایک ہزار تین سو امریکی ڈالر بنتے ہیں۔
ولیم کلارک 94 سال 7 مہینے اور 27 دن جبری طور پر لاپتہ رہے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ قید و بند کی زندگی گزارنے والے فرد ہیں۔ تاہم آمریت کی تسلط،سامراجوں کی بربریت اور دلوں میں بدلہ لینے کا بغض بہت سے کلارک کو جبری طور پر لاپتہ کر چکا، ہم تاریخ کی سیاہ چادر پہ لپٹے حقائق پہ نہیں پہنچ سکیں گے لیکن ہزاروں کلارک انہی کی طرح ازیت گاہوں میں قید رہے ہیں۔
طرزِ جبری گمشدگی کی مثالیں امریکہ تک محدود نہیں بلکہ مشرقِ وسطی کا شام بھی انہیں واقعات کی رونمائی کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیان پینسٹھ ہزار شامی،شامی حکومت اور اتحادی ملیشیا کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہوئے ہیں۔
2011 سے 2014 کے دوران شامی اذیت گاہوں میں قید سلام عثمان کے مطابق وہاں لوگوں کو طرح طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں لوگوں کو الیکٹرک شاک،کوڑوں کے زریعے،جلا کر اور آبروریزی کے زریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،کچھ لوگ وہاں نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور کئی لوگ دم تھوڑ جاتے ہیں۔
شام میں لاپتہ افراد کے لواحقین اغوا کنندگان کے خلاف اس ڈر سے کیس نہیں کرتے کہ کہیں ان کو اور نقصان نہ پہنچایا جائے،اپنوں کی بازیابی کے لیے بازار سرگرم ہے جہاں ہزاروں ڈالروں کے عوض لوگوں کو رہا کیا جاتا ہے یا ان کے لواحقین سے ملاقات کرا دی جاتی ہے۔
اس انسانیت سوز جرائم کی آڑ میں سری لنکا کے عام شہری بھی آئے ہیں۔ سری لنکا میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی تعداد باقی دنیا سے کہیں زیادہ ہے،معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ سری لنکا کی اذیت گاہوں میں ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ کے قریب لوگ قید و بند کی صوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
اس بے رحم نظام کا پیروکار بھارت کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ کھوج ضرور لگائی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں قبریں موجود ہیں جن کا وجود یہی نظام ہے۔
زرا مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا زکر کیوں نہ ہو۔ ہم مسلمان ہیں،ایک قوم ہیں لیکن برابر کے شہری نہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق صرف بلوچستان میں سینتالیس ہزار بلوچ اور پینتیس ہزار پشتون جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو دہائی سے اذیت گاہوں میں بند ہیں، سینکڑوں لوگ تو جیسے اجتماعی قبرستانوں میں دفن کر دیے گئے ہیں جبکہ سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں کوہساروں، دریاؤں، وادیوں اور جنگلوں میں پھینک دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر دین محمد بلوچ بطورمیڈیکل ڈاکٹر اورناچ بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے،ان کی گمشدگی کو آج بارہ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ان بارہ سالوں سے ان کی بیٹیاں سڑکوں، چوکوں اور شاہراہوں پر احتجاج کرتی آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کی ملاقات و یقین دہانی کے باوجود ان کے ابّو آج تک لاپتہ ہیں۔
دین جان اور ان کی بیٹیوں کی زندگیوں میں فرق صرف اتنا ہوگا کہ ابّو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اذیت گاہوں میں قید ہیں اور بیٹیاں اپنی ابو کی بازیابی کے لیے اپنے ملک میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہیں۔
ولیم کلارک کی امریکہ،عثمان اسلام کی شام اور ڈاکٹر دین جان کی پاکستان میں صدیوں کا فرق ضرور ہے لیکن اذیت گاہوں کا نہیں۔ عثمان اسلام کی شام میں اپنوں کی ملاقات کے لیے ڈالرز اگرچہ لیتے تھے مگر خاندان کو یہ دلاسہ ضرور ہوتا کہ میرا بیٹا زندہ ہے، یہاں ثواب سے بھی یہ کام نہیں کیا جاتا۔ عثمان اسلام اور ولیم کلارک اذیت گاہوں سے لوٹ ضرور آئے مگر کیا ڈاکٹر دین جان لوٹ آئے گا؟
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔