کلاسیکل بلوچی شاعری کا ایک وسیع ذخیرہ عشق ورزمیہ داستانوں سے مزین ہے اور اس کا ماخذ عورت ہے۔ ہانی کی شہ مرید کے ساتھ انمٹ عشق کو جدید بلوچی شاعری میں وطن سے محبت کے طور پر تشبیہ دی جاتی ہے جبکہ رزمیہ کلاسیکل شاعری میں اپنے کزن اور شوہر کے خلاف مہناز کی بغاوت سے لے کر دشمن کے خلاف بی بی بانڈی کی عملی مزاحمت تک عورتوں کی تقدیس اور تکریم کے ہزارہا واقعات پائے جاتے ہیں۔ گوہر کی میار جلی میں دودا کی ماں کے پرشکوہ کلمات انہیں نوبیاہتا بیوی سے جدا کرکے جنگ میں شہادت تک لے جاتے ہیں۔
گوہر کی تکریم پر جان دینے والے دودا کی والدہ بین یا ماتم نہیں کرتی بلکہ شادی کا جوڑا پہن کر پورے گاؤں میں فخر سے گھومتی ہے۔ قدیم غیر تعلیم یافتہ دور سے جدید بلوچ سماجی ڈھانچے تک مگر اس تمام سفر میں عورت کی تقدیس اپنی جگہ برقرار رہی۔ بلوچ اپنے قبائلی اور خاندانی جنگوں کا فیصلہ قرآن کی حرمت سے زیادہ عورت کی لاج رکھ کر کرتے ہیں۔
اسی زمانے کی بات ہے ایک بڑے قبائلی نواب اکبر خان بگٹی نے ایک غیر بلوچ مہمان عورت شازیہ خالد کی عزت اتارنے والے ایک فوجی کیپٹن کو سزا دلانے کا سادہ سا مطالبہ کیا لیکن بلوچ روایات سے عاری ایک فوجی آمر نے بردباری اور سمجھ بوجھ سے کام لے کر اپنے ایک فوجی اہلکار کو سزا دلانے کے بجائے بوڑھے بلوچ سردار کو ہی للکارا اور ان کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اسے وہاں سے ہٹ کرنے کی دھمکی دی جہاں ان کے بقول سوچا نہیں جا سکتا مگر کیا ہوا؟ وہ بوڑھا بلوچ سردار جدید بلوچی ادب میں ایک امر کردار اور سیاست میں مزاحمت کا استعارہ بن گیا۔
فوجی آمر کی ہٹ دھرمی، انا اور روایات سے عاری طریقہ کار کے سبب بلوچستان میں وہ شورش بپا ہوئی جو تھمنے کے بجائے بھڑکتی جا رہی ہے۔ ایک فوجی کی آمرانہ ذہنیت نے بلوچستان کو آتش کدہ بنایا جس کے انگاروں میں جل کر سینکڑوں بلوچ پیر وجوان تعلیم یافتہ وان پڑھ خاک بسر ہوئے مگر نتیجہ کیا نکلنا تھا، سو اب بھی دور دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا۔
پرویز مشرف کی بلوچستان کے معاملے میں فسطائی ذہنیت کو بدقسمتی سے ریاستی بیانیہ بنا کر آگے بڑھایا گیا۔ بلوچستان میں جلتی آگ کو بجھانے اور خون کے دھبوں کو دھلانے کے بجائے ان پر پٹرول چڑھکایا گیا اور مزید خون بہایا گیا۔ سو اس وقت کا بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے۔ یہاں لاشیں ہیں، یہاں نوحہ ہے لیکن آج بھی بلوچ مائیں جوان بیٹوں کی لاشوں پر گریہ نہیں کرتیں۔ یہ محض دعویٰ نہیں نہ ہی افسانوی باتیں ہیں۔ بلوچستان اور بلوچ مزاج کو سمجھنے والے ہی اسے سمجھتے ہیں، سو بہتر ہے کہ سمجھنے پر دھیان دیا جائے۔
اگر اب بھی کوئی ایسا ہے جو معاملات سدھارنے کی خواہش رکھتا ہے تو جنگ زدہ بلوچستان کا انکار کرنے کے بجائے زیادتیوں کا اقرار کیجیے، اپنی غلطیوں کو تسلیم اور ان کا اعتراف کیجیے، یہاں نوجوان اغوا ہوتے رہے، سیاسی کارکنان لاپتہ کر دیے گئے، مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں۔ میڈیا سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سب نے سب کچھ دیکھا مگر کچھ نہ کہا ان کی خاموشی ایک طرح سے "ہاں" تھی۔
بلوچ نوجوانوں کے بعد عورتوں کی جبری گمشدگی کا خطرناک سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے نتائج اس سے بدتر ہوں گے جس کا پرویز مشرف اور ان کے ہمنواؤں نے سوچا نہیں ہے۔
جن کا خیال ہے کہ وہ عورتوں کی پکڑ دھکڑ اور جبری گمشدگی سے بلوچستان میں بیس سالہ شورش پر قابو پائیں گے، ان کی غلط فہمی کا کوئی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ اپنی عورتوں کی تقدیس پر بہت حساس ہیں۔ بلوچستان میں قبائلی جنگیں عورت کی لاج رکھ کر بند ہو سکتی ہیں تو عورت کی تقدیس پر تیس سالوں تک جنگ ہی جنگ چلتی ہیں۔ بلوچ کٹتے ہیں، مرتے ہیں لیکن عورت کی تقدیس کو انا سمجھ کر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
اسے چاہے جہالت کہیں، فرسودہ نظام یا اجڑپن جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے لیکن بلوچستان میں یہ حقائق ہیں، وہ زمینی حقائق جن پر آج بھی پوری دیانت داری سے عمل کیا جاتا ہے۔
ریاست کا بلوچستان کے معاملات پر نکتہ نظر آج بھی وہی پرویز مشرف والا ہے، جس میں معمولی تبدیلی تک نہیں لائی گئی، البتہ اسے اور پرخطر بنانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں لائی جا رہی۔ وہ جو کل تک بلوچ روایات سے بے خبر تھے آج بھی انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ عورتوں کے معاملے میں بلوچ نفسیات کا ایک الگ پیرامیٹر ہے۔
دودا کی ماں نے طعنہ دے کر کہا تھا " آمرد کہ میاراں جل انت نیم روچ ءَ نہ وپساں کل آں" کلاسیکل شاعری کی شعر کا یہ ٹکڑا ہر بلوچ سینے میں محفوظ ہے، چاہے کوئی طالب علم یا تعلیم یافتہ شخص ہو کوئی ان پڑھ، گنوار یا چرواہا۔
مشورہ ہے کہ بلوچ کے ساتھ دشمنی ہی سہی لیکن کلاسیکل بلوچی شاعری کا ترجمہ کرکے کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے پھر جنگ لڑنا یا ساتھ ملانا دونوں آسان رہیں گے۔