لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکلے بلوچ مظاہرین خود لاپتہ ہو گئے

ریاست کو اب بھی یہ خوش فہمی ہے کہ انوار الحق اور سرفراز بگٹی جیسے افراد بلوچستان میں ریاست کے لیے ہمدردی کا بیانیہ تراش لیں گے، یہ ان کی بھول ہے۔ اب چیزیں الگ رنگ اختیار کر چکی ہیں۔ بلوچ سیاسی محاذ پر انتہائی منظم اور شعوری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکلے بلوچ مظاہرین خود لاپتہ ہو گئے

بلوچ قوم کی گذشتہ سات دہائیوں سے زائد کی مختلف طریقوں سے بلوچ بقا و تشخص کی جدوجہد کئی نشیب و فراز سے گزر کر اب گذشتہ نصف دہائی سے ہر محاذ پر ایک سیاسی و شعوری مرحلے میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔ فکری اعتبار سے بلوچ کاز سے وابستہ انفرادی یا اجتماعی طور پر کسی بھی سیاسی کارکن کا بلوچ کاز کے حوالے سے نظریہ اور کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سیاسی کارکن کا تعلق چاہے کسی بھی نظریے یا سکول آف تھاٹ سے ہو، وہ بطور قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے سیاسی و سماجی اقدار کے تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے۔

اب بلوچ قوم کو اپنی مشکلات کا ادراک ہو چکا ہے اور اپنے اوپر ریاست کی بربریت، ظلم اور اپنی تکالیف کو منظم اور مہذبانہ انداز میں دنیا کو بتانا ایک بڑی کامیابی و کامرانی ہے کہ ایک قوم کی آزادانہ حیثیت کو سلب کر کے ان کی منشا کے بر خلاف تین پیروں والی فیڈریشن کو ایک اور قوم کو جبری طور پر شامل کرنے کی تاریخ کو مہذب انداز میں سیاسی طور پر دنیا کو اس انداز میں بتایا جا رہا ہے۔ ایسا سیاسی مزاحمتی اظہار ہماری تاریخ کا انمٹ نشان ہے۔ اس سے قبل 2009، 2010 میں بھی بڑے بڑے سیاسی احتجاج ہوئے ہیں، مگر اب کی بار جو چیزیں منظم و شعوری انداز میں ہو رہی ہیں، اس میں بلوچ نوجوانوں، جس میں بڑی تعداد نہیں بلکہ اکثریت خواتین اور بچیوں کی ہے، جو اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ گذشتہ کئی سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھا کر کر رہی ہیں اور وہ بچے بچیاں جو ایک جنگ زدہ معاشرے میں ان کی پرورش ہو رہی ہے اور جنگ بھی وہ کہ وطن، مٹی اور مظلوم سے محبت کا مسلسل درس دے رہی ہو، ایسی جنگ میں کسی کا جنم یا پرورش ہوتی ہے وہ جنگ میں ہی جینے کا سلیقہ سیکھتا ہے، تا وقتیکہ وہ جس امن کے لیے سوچتا ہے وہ امن ماحول ان کو میسر ہو جائے۔

جب کوئی مظلوم اپنی مظلومیت کا ان کو ادراک ہو جب اس نے یہ تہہ کیا کہ وہ اپنے اوپر مزید ظلم برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تو مظلوم کی کمٹمنٹ کے سامنے کوئی بھی طاقت آسانی سے ان کو کمزور نہیں کر سکتی ہے۔ جس دن مظلوم اپنی نجات کے لیے کسی بھی تحریک یا کاز میں شامل ہو گیا تو وہ اسی دن اپنی منزل کا سوچتا ہے نا کہ کمزور ہونے یا پیچھے ہٹنے کا۔ لہٰذا ریاست کی مقتدرہ قوتیں اس بات کا مطالعہ ضرور کریں اور اس پہلو پر ضرور نظرثانی کیا کریں کہ اب یہ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہو چکا ہے کہ یہ کوئی پراکسی نہیں بلکہ یہ زمین و بقا کے ساتھ ساتھ بلوچ ماورائے عدالت قتل و نسل کشی کے خلاف ایک منظم اور مہذب انداز کا اظہار ہے۔

جب ہم کسی کو اپنے رویوں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ وطن ہے تمہارا، ہمارا نہیں جیسا کہ کل اسلام آباد میں بلوچ خواتین کے پرامن احتجاج کا استقبال لاٹھی چارج و شیلنگ سے ہوا۔ اس سے پہلے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، جب آپ اسلام آباد میں ڈی چوک پر عمران خان کے دھرنے پر تھوڑی سی نظر دوڑائیں وہاں شرکا کیسے 'فیض یاب' ہوئے۔ ہر طرح کے تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے، پی ٹی وی پر حملہ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے تک، باوجود اس کے، ان میں لفافے بھی تقسیم ہوئے، انہیں اقتدار سے نوازا گیا، کیونکہ وہ اپنے اور فیض کے آشیرباد سے سب کچھ سکرپٹڈ تھا۔ دوسری جانب مظلوم بلوچ تربت سے بلوچ نسل کشی اور ماورائے عدالت بلوچوں کی نسل کشی کے خلاف ایک پرامن ریلی تربت سے نکال کر اسلام آباد تک کسی بھی سرکاری املاک کو ذرا بھی نقصان پہنچائے بغیر اس امید سے اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں کہ شاید ان کے غموں کا کوئی مداوا ہو گا مگر رات گئے ان ماؤں بہنوں اور بچیوں کے ساتھ کیا ہوا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک طرف عمران خان اور پنجاب کے ایلیٹ ہیں اور دوسری جانب مظلوم بلوچستان کے سالوں سے لاپتہ افراد کی وہ بوڑھی مائیں ہیں جو ایک امید کے ساتھ اسلام آباد کی طرف دیکھ رہی ہیں، ان کے ساتھ کیا ہوا اور بلوچ بچیوں اور خواتین کے ساتھ کیا ہوا، یہ سب صرف یاد رکھا جائے گا۔

اس میں نگران وزیر اعظم کی بلوچوں سے نفرت اور انا کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے متعصب اور بلوچ دشمن عناصر جو کہ ہمیشہ سے چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں شورش جاری رہے اور وہ اس سے مستفید ہوتے رہیں، ایسے لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے میں ریاست کی مدد کریں گے، میرے خیال میں یہ خام خیالی ہے۔ ایسے لوگ صرف مظلوم دشمنی پر تُلے ہوئے ہیں۔ ریاست کو اب اپنی انا کے خول سے نکل کر بلوچ جدوجہد کو سیاسی و برابری کی بنیاد پر ڈیل کرنے کے لیے سوچنا ہو گا۔ ریاست کو محض ایک خوش فہمی ہے کہ انوار اور سرفراز جیسے افراد بلوچستان میں ریاست کے لیے ہمدردی کا بیانیہ تراشیں گے، یہ ان کی بھول اور خوش فہمی ہے۔ اب چیزیں الگ رنگ اختیار کر چکی ہیں۔ بلوچ سیاسی محاذ پر انتہائی منظم اور شعوری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

بلوچ سیاسی و نظریاتی جدوجہد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تربت سے نکلے ہزاروں نوجوان جن میں بڑی تعداد خواتین کی تھی، بلوچستان کے جس جس شہر میں داخل ہوئے ہزاروں لوگوں کا شاندار استقبال انہیں ملا جو شاید وہاں کے دہائیوں سے نمائندگی کرنے والے کسی سیاسی لیڈر کو بھی نہ ملا ہو۔ بارکھان جیسے کٹر فرعونیت نما سرداری نظام کے سامنے خوف سے کوئی پتا تک نہیں ہلتا مگر وہاں ماہ رنگ بلوچ کے شاندار استقبال سے یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچ غلامی کی زنجیریں توڑ چکے ہیں۔ اب اس کے کاز کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ بس سب کو اپنا نظریہ اور زمین عزیز ہے۔

رضاکارانہ طور پر قوموں کی بقا کی جدوجہد میں انفرادی طور پر شمولیت اختیار کرنا ایک فطری عمل ہے۔ اس نوعیت کے کسی بھی عمل میں شامل ہونا انسان کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے۔ انفرادی طور پر کسی کاز سے وابستہ ہونے میں شعور کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اگر شعوری طور پر انسان نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی بقا و زمین کی جدوجہد کی خاطر شاملِ کارواں ہوگا تو ایسے زمین زادوں کو کسی بھی لالچ یا خوف سے کسی بھی صورت کسی قومی نوعیت کے کاز سے دستبردار نہیں کیا جا سکتا۔

مکران، تربت سے اپنے لخت جگر کی بازیابی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لواحقین نے اسلام آباد کی جانب رخ اس لیے کیا شاید وہاں کوئی ان کی بات سن لے گا، مگر ہوا یوں کہ لاپتہ افراد کے لیے پہنچے بلوچ مرد و خواتین خود لاپتہ ہو گئے۔ ریاست نے ان آوازوں کو سنا ہوگا۔ اگر ان آوازوں کو بروقت نہ سنا گیا تو یہ ریاست کے ہرگز مفاد میں نہیں ہو گا۔ اب بلوچ اپنا مقدمہ شعوری انداز میں سیاسی طور پر لڑ رہے ہیں۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔