جیو نیوز پر ملالہ پر گذشتہ رات خوب بحث ہوئی۔ ایک طرف ریما عمر اور شہزاد اقبال تھے جو ملالہ کو ہیرو قرار دے رہے تھے اور دوسری طرف حسن نثار اور ارشاد بھٹی تھے جو پتہ نہیں کیا کہہ رہے تھے۔ بڑی مشکل میں تھے دونوں۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس بنیاد پر ملالہ کو ہیرو قرار دینے سے انکار کریں۔ تعریفیں کیے جاتے تھے اور بضد تھے کہ ہیرو قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حسن نثار کا کہنا تھا کہ ہیرو کی تعریف کچھ اور ہوتی ہے۔ کیا ہوتی ہے، وہ یہ بتانے سے قاصر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ دراصل ایک حادثہ تھا اور وہ خوش قسمت تھیں کہ اس حادثے میں بچ گئیں۔ جب شہزاد اقبال نے کہا کہ وہ کھلی دہشتگردی کا نشانہ بنیں تو حسن نثار کا کہنا تھا کہ دہشتگردی بھی ایک حادثہ ہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف تھے ارشاد بھٹی صاحب۔ وہ تو کچھ اور ہی کہانی بن رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سلام پیش کرتے ہیں ملالہ کو کیونکہ اس نے پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا ہے، بچیوں کی تعلیم کے لئے بولی ہیں، دہشتگردوں کی گولی کھائی ہے، اس ملک میں ہیروز کی کبھی عزت نہیں کی جاتی، یہاں لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی، فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا، بھٹو کے جنازے پر 20 لوگ نہیں تھے، بینظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا، نواز شریف کو غدار قرار دیا گیا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا جاتا ہے (ساتھ میں ایوب خان اور جنرل مشرف کو بھی پتہ نہیں کیا کیا اعزازات بخشتے رہے لیکن انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہ ہے)، اسی لئے ملالہ کو بھی یہاں یہودی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا وہ ایک ہیرو ہے؟ نہیں۔ ہیرو کی تعریف کچھ اور ہوتی ہے۔
حسن نثار کا بھی مسلسل یہی استدلال تھا۔ شہزاد اقبال نے گنوانا شروع کیا کہ وہ کیوں پاکستان کی ہیرو ہے۔ وہ اس لئے ہیرو ہے کیونکہ اس نے اس وقت طالبان کے خلاف آواز اٹھائی جس وقت ریاست بھی خاموش تھی۔ اس نے حامد میر کے پروگرام میں دیکھیے، جس میں طالبان سامنے کھڑے ہیں اور ملالہ کہہ رہی ہے کہ بچیوں کے سکول بند مت کریں۔ اس نے دس سال کی عمر میں سوات جیسے علاقے سے کہ جہاں ریاست کی اپنی فوج اس وقت نہیں جا سکتی تھی، ملالہ نے رپورٹنگ کی، اس نے لکھا کہ کیسے اس کے اور دیگر بچوں کے سکولوں کو بند کیا جا رہا ہے، اس نے طالبان کی دھمکیوں کے باوجود اپنے اس مشن پر کام جاری رکھا اور اس کے نتیجے میں اس کو طالبان نے گولی ماری۔ وہ معجزاتی طور پر بچ گئی تو اس نے باہر بیٹھ کر بچیوں کی تعلیم کے لئے کام شروع کر دیا۔ وہ ملالہ فنڈ سے صرف پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے لئے کام نہیں کر رہی۔ اس نے نائیجیریا میں بھی بچیوں کی تعلیم کے لئے کام کیا، دنیا بھر میں کر رہی ہے۔ پاکستان میں ایسے سکولز ہیں جو ملالہ فنڈ سے چل رہے ہیں لیکن ان کے نام لینے کی پاکستان میں اجازت نہیں ہے کیونکہ ان پر حملے ہو سکتے ہیں۔ وہ پاکستان کی نہیں، پوری دنیا کی ہیرو ہے اور اس کو ہیرو نہ ماننے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری طرف نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات تھا۔ لیکن ذرا کھل کر حملہ ہوا تو حسن نثار کے منہ سے بھی اصل باتیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ پہلے بولے مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، اس سے اور طرح کے کام لیے جا رہے ہیں۔ شہزاد اقبال نے اس کا بھی جواب دے ڈالا کہ مغرب سے موبائل آتا ہے، ان کی بنائی گاڑی میں بیٹھتے ہیں، ان کے بنائے ٹوئٹر پر بیٹھ کر لوگوں کو گالم گلوچ کر سکتے ہیں لیکن وہی مغرب کسی کو آسکر دے دے یا کسی کو نوبیل دے دے تو تکلیف ہو جاتی ہے۔ ابھی تک حسن نثار اور ارشاد بھٹی ہیرو کی تعریف دینے سے قاصر تھے۔ پھر بولے کہ وہ باہر کیوں چلی گئی؟ جواب دیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ جب وہ پاکستان آئی تھی تو پوچھیں پاکستانی ریاست نے کس سطح کی سکیورٹی اس کو مہیا کی تھی۔ کیا ریاستِ پاکستان اس کو اس سطح کی روزانہ کی بنیاد پر سکیورٹی دے سکتی ہے؟ جس ملک میں اس سکول کو بھی خطرہ ہو جو اس کے دیے پیسوں سے چل رہا ہو، وہاں اس کی جان کی کون ضمانت دے گا؟ بھٹی صاحب بولے جو ہیرو ہوتا ہے وہ جان کی پروا نہیں کرتا۔ افتخار حسین کا بیٹا شہید ہوا، وہ آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔ اعتزاز حسن نے دہشتگرد کو جپھا ڈالا، اور بچوں کو بچا لیا۔ بشیر بلور کے خاندان نے لاش اٹھا لی لیکن وہ پاکستان سے بھاگا نہیں، وہ میرے ہیرو ہیں۔ یہاں حسن نثار صاحب بھی خوش ہو کر بولے آہ۔۔۔ جیسے بڑھک لگائی جاتی ہے۔
ریما عمر اور شہزاد اقبال نے پوچھا کہ کیا اس کا قصور یہ ہے کہ وہ زندہ بچ گئی؟ اس کے ہیرو ہونے کے لئے اس کو مرنا پڑے گا؟ اس پر بھٹی صاحب اور حسن نثار یک زبان ہو گئے کہ نہیں، یہ کوئی نہیں کہہ رہا۔ حالانکہ دو منٹ پہلے حسن نثار صاحب اپنی جعلی دانشوری جھاڑ چکے تھے کہ فیض نے اس شان کی بات کی تھی جو دھج سے مقتل میں جانے سے سلامت رہتی ہے، یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔ تو کم از کم یہ تو مانیں کہ آپ کو اس کے زندہ بچ جانے سے ہی مسئلہ ہے۔ مر جاتی تو جیسے اعتزاز حسن کو ہیرو مان لیا، ویسے ہی اس کو بھی مان لیتے۔ کیونکہ خدمت تو اس نے کوئی کم نہیں کی تھی۔ تعلیم کے لئے آواز اٹھا رہی تھی، گولی مار دی گئی۔
یہ موت سے رومانس بیچنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اس ملک میں کوئی کچھ کرنے جوگا ہمارے جعلی دانشوروں نے نہیں چھوڑا۔ مجھے یاد ہے ایک پروگرام میں حسن نثار ہی فرما رہے تھے کہ آخرت کا لفظ اخر سے نکلا ہے، اپنا آنے والا وقت سنوارنے کا مطلب ہے آخرت سنوارنا۔ اور اب یہ موت بیچ رہے ہیں۔
مسئلہ کیا ہے، وہ سن لیجئے۔ ملالہ سے تکلیف یہ ہے کہ وہ جس مشن پر کھڑی تھی، وہیں کھڑی ہے۔ حسن نثار کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے اور انہوں نے اپنا مؤقف نہیں بدلا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردوں کو ایسی ہی باتیں کرنے والے پسند ہیں۔ اس وقت وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ زبردستی اسلام نافذ کر سکیں۔ فی الحال انہیں میڈیا میں پاپولر آوازیں چاہیے ہیں جو ان کے دشمنوں کی جدوجہد کو جھٹلائیں، ان کے کام کی اہمیت سے انکار کریں۔ وہ اپنی حمایت آپ سے نہیں چاہتے، نہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ان کے سامنے کھڑے ہونے والوں کے آپ جب تک خلاف ہیں، آپ ان کے آلۂ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کو مارنے کی اس وقت ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کوششیں جاری ہیں وہ وقت واپس لانے کی۔ تب ہم حسن نثار کا مؤقف ضرور جاننا چاہیں گے۔
مسئلہ بیچ میں رہ گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملالہ نے پاکستان سے جانے کے بعد وہ باتیں بھی کہیں جو اس ملک کے اصل مالکان کو پسند نہیں آئیں۔ بیس سال طالبان کو پالنے والوں کو اگر کوئی کہے کہ طالبان تو آپ خود پالتے رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسا شخص جس کی ہر آہٹ پر دنیا کان لگا کر بیٹھی ہو تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ یہ اسی تکلیف کی چیخیں ہیں جو بھٹی صاحب اور حسن نثار کی آوازوں میں سنائی دے رہی ہیں۔ اللہ ان کی حالتوں پر رحم کرے۔ آمین۔