امریکہ یا چین؟ بال اب طالبان کے کورٹ میں ہے

امریکہ یا چین؟ بال اب طالبان کے کورٹ میں ہے
تیزی سے بدلتی صورت حال میں جہاں افغانستان میں بدامنی اور خانہ جنگی کا خطرہ ہے وہیں کشمیر کاخطہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہےاس بات کا خطرہ بہرحال موجود ہے کہ افغانستان کی داخلی صورت حال سے اٹھنے والے بادل کشمیر کے سرسبز پہاڑوں تک جاپہنچیں۔

کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان ستر سالہ تنازعہ تو ہے ہی لیکن چین کے لئے سپرپاور بننے کا راستہ بھی کشمیر سے ہوکر ہی گزرتا ہے یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ گلگلت بلتستان بھی ریاست کشمیر کا حصہ ہے گلگت بلتستان بھی دنیا کی نظر میں اتنا ہی متنازعہ علاقہ ہے جتنا کشمیر ہے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ وہ واحد علاقہ ہے جس کی سرحد چین سے ملتی ہے یعنی اگر آزاد کشمیر اور گلگت پاکستان کا حصہ نہ ہوتے تو پاکستان کا چین کے ساتھ براہ راست کوئی زمینی راستہ نہ ہوتا اس لئے آنے والے وقت میں خطہ کشمیر کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی اوراس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ سرد جنگ کا میدان افغانستان کے ساتھ ساتھ کشمیر بھی بن سکتا ہے۔

یہ کہہ دینا کہ بھارت کو افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے کلی طور پر درست نہیں ہے امریکہ افغانستان سے انخلا سے قبل ہی بھارت کو اس کی مزدوری کشمیر ہڑپ کرنے کی خفیہ تھپکی دے کر ادا کرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کی اس حرکت پر کوئی ٹھوس ردعمل نہیں دیا اگر بھارت کو افغانستان میں سرمایہ کاری کے بدلے میں مقبوضہ کشمیر کے معاملےپر امریکہ کی خاموش حمایت بھی مل جائے تو یہ بھارت کے لئے کسی بھی طرح سے گھاٹے کا سودا نہیں اور آنے والے وقت میں اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ اگر پاکستان چین کی جانب اپناجھکاؤ بڑھائے گا اور سی پیک کو آگے بڑھاتا رہے گا تو امریکہ کی بھارت کے لئے ہمدردی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملے پر بھی نظرآئے گی۔

لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا کہ بیس سال امریکہ کا افغان جنگ میں اہم اتحادی رہنے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑنے اور ستر ہزار سے زائد شہریوں اور فوجی جوانوں کی قربانی کے بعد آج ہم امریکہ سے آٹے میں نمک کے برابر امداد کے سوا کیا حاصل کرپائے ؟ جب یہ کہاجاتا ہے کہ امریکہ سے تعاون بدلے پاکستان کو امریکہ سے کشمیر پر حمایت طلب کرنی چاہیے تو ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کو کشمیر تک محدود نہیں کرسکتے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشمیر اور افغانستان سے بھی بہت آگے کی بات ہے جبکہ حقیقت میں مفاد پرستی پر مبنی تعلقات کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک مفادات پر مبنی تعلقات رکھے اور تب تک رکھے جب تک مفاد رہا جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی ہمیشہ اپنے کم مدتی معاشی مسائل کو مدنظر رکھا گیا پاکستان باوجود اپنی قربانیوں کے امداد کے سوا کوئی قابل ذکر فائدہ حاصل نہ کرسکا نہ کشمیر پر حمایت اور نہ ہی تجارت میں اضافہ کچھ بھی نہیں۔ ہمیں اس امر پر غور کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟؟؟

دوسری بات یہ کہ طالبان کے دوبارہ افغانستان پر قابض ہونے (جس کے واضح امکانات موجود ہیں) کو بنیاد بناکر یہ تاثر دیناکہ یہ امریکہ کی شکست اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی فتح ہے قبل از وقت ہوگا ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان کا اونٹ قابض ہونے کے بعد کس کروٹ بیٹھے گا ایک طرف روس اور ایران ہیں ایک طرف بھارت اور امریکہ اور ایک طرف پاکستان اور چین لیکن یہ بلاکس بھی حتمی نہیں ہیں ان بلاکس میں بھی وقت کے ساتھ تبدیلیاں ممکن ہیں مزید یہ کہ ابھی یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ جب طالبان افغانستان پر قابض ہوجائیں گے تو اس پر امریکہ کا کیا ردعمل ہوگا ؟ کیا وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے گا ؟ یا پھر مسترد کرے گا اور طالبان کے خلاف افغان حکومت کی مدد کرےگا یا پھر طالبان کی ظاہری مخالفت اور خفیہ حمایت کرے گا یا پھر وہ ڈبل گیم کرے گا یا پھر وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کئے بغیر ان سے سفارتی تعلقات رکھے گا جب تک یہ منظر نامہ واضح نہیں ہوجاتا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ایک بات واضح ہے کہ نئے بلاکس بننے جارہے ہیں اور سفارتکاری کے آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں، آنے والا وقت وہ ہے جس میں بلاکس کی تقسیم مزید واضح ہوتی جائے گی پاکستان کو بھی کوئی بلاک جوائن کرنا ہوگا یقینا یہ فیصلہ تب ہی درست ہوپائے گا جب طالبان کا اونٹ کسی کروٹ پر بیٹھتا نظر آئے گا کیونکہ طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد طالبان کے کسی ایک بلاک میں شامل ہونے کے بہت دورس نتائیج ہونگے اس لحاظ سے بال اس وقت طالبان کے کورٹ میں ہے اور طالبان کا جو طرز زندگی ہے اس کی وجہ سے نہ تو وہ کسی جنگ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی عالمی دباؤ اور پابندیاں ان پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہیں جس طرح دنیا کے کسی اور ملک پر ہوتی ہیں۔ اصل رسا کشی طالبان کے مکمل طور پر افغانستان قابض ہونے کے بعد ہوگی دیکھنا ہوگا کہ طالبان کس قیمت پر اور کس بلاک میں شامل ہونگے یا غیر جانبدار رہیں گے۔

ملک کی داخلی صورت حال کی اگر بات کی جائے تو حکومت کی جانب طالبان سے متعلق نرم رویہ اختیار کیا جارہا ہے گلگت بلتستان میں طالبان کمانڈر کی کھلی کچہری اور پشاور میں ریلی نما جنازے کے حالیہ واقعات پرحکومت کا کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آیا مزید یہ کہ وزیراعظم کا اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینا اور افغانستان کا کوئی فوجی حل نہ ہونے کے بیانات مسلسل دینا اور پھر یہ کہنا کہ میں امریکہ کو اڈے نہیں دونگا جبکہ اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اڈے امریکہ نے مانگے ہی نہیں امریکہ کو تو مشرف دور کے معاہدے کے تحت پاکستان کی ائیر اسپیس چاہیے تھی جو کہ وہ سازو سامان کی امریکہ منتقلی کے لئے استعمال کر رہے ہیں بظاہر حکومت کی یہ نرم پالیسی عام سی بات یا سیاسی حکمت عملی اور بدلتے حالات کے مطابق لگتی ہے لیکن اس پالیسی کے پاکستان کی داخلی سیاست پر انتہائی دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔

فرض کریں اگر 2023 کے عام انتخابات سے پہلے طالبان افغانستان کا مکمل کنٹرول سنبھال لیتے ہیں تو کیا وہ چاہیں گے کہ پاکستان میں ان جماعتوں کی حکومت بنے جن کے دور میں امریکہ ڈرون حملے کرتا تھا اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن ہوتا تھا اور جن کے دور میں سوات آپریشن کرکے طالبان کو وہاں سے نکالا گیا یا پھر کیا وہ یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں اس جماعت کی حکومت بنے جس کے دور میں قبائلی علاقوں میں ضرب عضب آپریشن ہوا۔ ایسی صورت حال میں جب افغانستان میں طالبان اقتدار سنبھال چکے ہونگے تو پاکستان میں مذکورہ جماعتوں کے لئے الیکشن کمپین کرنا مشکل ہوسکتا ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ماضی میں ایسے حالات ہم دیکھ چکے ہیں۔ اللہ آنے والے وقت میں پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔