Get Alerts

چین اور امریکہ ایک بار پھر آمنے سامنے، امریکہ کی چینی اداروں پر پابندی، چین کا جوابی وار

چین اور امریکہ ایک بار پھر آمنے سامنے، امریکہ کی چینی اداروں پر پابندی، چین کا جوابی وار
چین اور امریکہ ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں، امریکہ نے درجنوں چینی اداروں پر پابندی لگا دی۔

تفصیلات کے مطابق امریکا نے چین،میانمار، شمالی کوریا اور بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد اور اداروں پر انسانی حقوق سے متعلق نافذ پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے چینی آرٹی فیشل اینٹی لیجنس کمپنی کو ’بلیک لسٹ‘ قرار دے دیا ہے۔

میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق پابندیوں پر کینیڈا اور برطانیہ نے بھی امریکا کے موقف تائید کی۔ علاوہ ازیں جو بائیڈن کی حکومت کے تحت واشنگٹن کی جانب سے پہلی بارشمالی کوریا پر ایک نئی پابندی عائد کی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر دیگر کے ہمراہ میانمار عسکری اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اپنے بیان میں ڈپٹی سیکریٹری خزانہ ویلی ایڈیمو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے آج کے اقدامات یہ ہے کہ دنیا بھرکے ممالک، اور خاص طور پر وہ جو برطانیہ اور کینیڈا شراکتدارہیں، ایسے افراد کے خلاف رد عمل کا اظہار کریں گے جو ریاست کی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ظلم و جبر پھیلائیں گے‘۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر اور واشنگٹن میں واقع چین، میانمار اور بنگلادیش کے سفارتخانوں نے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

امریکی محکمہ خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ چینی آرٹیفشل انٹیلی جنس کمپنی ’سینس ٹائم‘ جو چینی ملیٹری انڈسٹریل کامپلکس کمپنیز میں شامل ہے،پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس کے ذریعے چہرے کی شناخت کا نظام بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے وہ کسی بھی ہدف کی نسل کا تعین کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب چین نے” امریکی جمہوریت“کے ماڈل کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیارقرار دیا ہے۔ چین کا یہ بیان امریکہ کی طرف سے جمہوریت پر اس سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد سامنے آیا جس کا مقصد آمرانہ حکومتوں کے مقابلے میں ہم خیال اتحادیوں کی حمایت تھا. فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق چین، روس اور ہنگری کو ورچوئل سمٹ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جواب میں چین نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن پر پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرد جنگ کے دور کی تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔

چینی وزارت خارجہ نے اپنےبیان میں کہا کہ جمہوریت طویل عرصے سے بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والا ہتھیار بنی ہوئی ہے جسے امریکہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بیان میں امریکہ پر دنیا کے مختلف ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کو ہوا دینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ امریکہ نے سمٹ فار ڈیموکریسی کا اہتمام اس لیے کیا تا کہ نظریاتی تعصب کی لکیر کھینچی اور جمہوریت کو آلے اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور تقسیم اور محاذ آرائی کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ بیجنگ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تمام اقسام کی جعلی جمہوریتوں کی سختی کے ساتھ مزاحمت اور مخالفت کرتا رہے گا.