Get Alerts

ایمانداروں کی حکومت میں عام آدمی کے لئے حج ناممکن ہو گیا

ایمانداروں کی حکومت میں عام آدمی کے لئے حج ناممکن ہو گیا
2018 میں حج کی سرکاری فیس 2 لاکھ 80 ہزار روپے تھی جو افراد ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جمع تفریق شروع کر دی تھی۔ سرکاری حج پرائیویٹ حج کی نسبت دو تین لاکھ روپے سستا ہوتا ہے اور محدود وسائل کے حامل افراد کے لئے سرکاری حج کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ایسے سرکاری ملازمین جو 2018 میں ریٹائر ہو رہے تھے وہ اس بات کا تخمینہ لگا چکے تھے کہ وہ اپنی شریک حیات کے ہمراہ باآسانی حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر لیں گے۔ بہت سے خواہشمند افراد سرکاری حج اپلائی کرنے کی غرض سے مطلوبہ رقم جو کہ لگ بھگ 560,000 روپے بنتی ہے.

اپنے بینک اکاؤنٹس میں محفوظ کیے ہوئے تھے۔ جیسے وزارت مذہبی امور سرکاری حج کے لئے درخواستیں جمع کرانے کا اعلان کرتی ہے بینک کے مینیجرز اپنے کسٹمرز کو بلا لیتے ہیں اور آن لائن درخواست بھیج دی جاتی ہے۔ سرکاری حج 2017 میں 2 لاکھ 70 ہزار کا تھا جو کہ 10 ہزار کے اضافے کیساتھ 2018 میں 2 لاکھ 80 ہزار کا ہو گیا۔ عام طور پر میاں بیوی حج کے لئے اکھٹے جاتے ہیں بلکہ یہ ان کا عمر بھر کا خواب ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی رقم سے بیت اللہ کی زیارت اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کا شرف حاصل کریں گے۔ محدود نشستوں کے سبب بہت سے افراد مسلسل تین چار سال حج کے لئے اپلائی کرتے رہتے ہیں۔

2019 میں بہت سے خواہشمند بینک اکاؤنٹس میں پہلے سے موجود رقم سے حج اپلائی کرنے کے قابل نہ تھے کیونکہ دو افراد کے حج کی درخواست جمع کرانے کے لئے قریباً 8 لاکھ 80 ہزار روپے مطلوب تھے۔ کسی بھی متوسط خاندان کے لئے بیک وقت 3 لاکھ 20 ہزار کا اضافی بوجھ برداشت کرنا ممکن نہ تھا، اس لئے انہوں نے مزید رقم کے بندوبست اور ملکی معیشت میں بہتری کی امید کی روشنی میں 2020 تک انتظار کرنا بہتر سمجھا۔

2020 میں دو افراد کا سرکاری حج پیکیج لگ بھگ 11 لاکھ روپے ہو گیا جو کہ 2018 کے اخراجات کا قریب دو گنا بنتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، گردشی قرضوں کی واپسی اور سعودی حکومت کی جانب سے عازمین حج پر اضافی فیس، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہ سے سرکاری حج اس قدر مہنگا ہو گیا۔ بہرحال ہماری حکومت کو خیال رکھنا ہو گا کہ اس کے ذمے کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں کہ جس کے سبب آئندہ سالوں میں حج کے بڑھتے اخراجات کو کنٹرول کیا جا سکے۔

تھوڑی دیر کے لئے ان بوڑھے میاں بیوی کے جذبات کا تصور کیجئے جن کی یہ تمنا تھی کہ مرنے سی قبل ایک بار حج بیت اللہ کی سعادت اور روضہ رسولﷺ کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ شاید ہم انہیں یہ تمام عوامل نہ سمجھا سکیں کہ کس وجہ سے ان کی حاضری مشکل ہو چکی ہے کیونکہ ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ وہ تو 2018 سے اپنے حج اخراجات کا بندوبست کیے بیٹھے تھے۔

کیا اب اس کرونا وبا کے بعد جب حج کا کارواں آئندہ برس تیار ہو گا تو حکومت کو سبسڈی نہیں دینی چاہیے؟

حج بلاشبہ صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ ان افراد کی فہرست مرتب کرے جنہوں نے 2018 میں حج کی درخواست تو جمع کرائی تھی لیکن 2019 میں قدرے مایوسی میں بینک سے گھر لوٹ گئے یا بینک مینیجر کی کال ریسیو کرنے کی ہمت ہار چکے تھے۔

سوشل میڈیا پر دانشوروں کے دلائل کے انبار ہیں جو فرماتے ہیں حج مہنگا ہو گیا لیکن نماز مفت ہے، پڑھ لیں۔ حج تو صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن کیا کریں ان عمر رسیدہ جذباتی کیفیات کا؟ چہروں سے ٹپکتی مایوسی دیکھی نہیں جاتی۔ وہ تو بارہا ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ حج کے پیسے تو پورے تھے، یہ یکایک اتنے روپے کم کیسے ہو گئے؟

کیفیات اور جذبات پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ ناامیدی اور مایوسی میں وہ یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ شاید الله پاک کے ہاں ابھی حاضری کی درخواست قبول ہی نہیں ہوئی یا بارگاہ رسالتؐ س ابھی حاضری کا بلاوا نہیں آیا۔

غریب افراد کے لئے بہرحال یہی تسلی بہتر ہے کا حاضری کی درخواست جب قبول ہو جائے گی تو اسباب بھی پیدا ہو جائیں گے۔

انہی جذباتی کیفیات میں کچھ بزرگ افراد کو یہ بھی کہتے سنا کہ یہ تو اب نیا پاکستان ہے۔ جو حکومت میں اب بیٹھے ہیں وہ تو پہلے والوں کو چور کہتے تھے اور ان چوروں کی حکومت میں کئی ایسے افراد ہماری آنکھوں کے سامنے حج کر آئے جن کے پاس ہم سے بہت کم پیسے جمع تھے۔ یہ مایوس لوگ اب حکومت میں بیٹھے ایمانداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان کی زندگی کی اب یہ واحد تمنا کب پوری ہو گی۔

مصنف لندن میں نیا دور کے خصوصی نمائندے ہیں، وہ حالات حاضره اور سیاست پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں سماء ٹی وی کے بیورو چیف کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیں۔ ان کے پاس صحافت کا 20 سالہ تجربہ ہے جس میں کئی روزنامے بھی شامل ہیں۔ سید کوثر عباس کا ٹوئٹر ہینڈل @SyedKousarKazmi ہے اور ان سے kousar.abbas@nayadaur.tv پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔