افغانستان کی جنگ: پہلی اینگلو افغان جنگ کی داستان

افغانستان کی جنگ: پہلی اینگلو افغان جنگ کی داستان
روس ایران اور خلافت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد برطانیہ کے لئے براہ راست خطرہ بن گیا تھا۔ لہذا انگریزوں نے اپنا بندہ یعنی شاہ شجاع کو ہندوستان (لدھیانہ) سے لاکر کابل میں تخت پر بٹھانا تھا۔ اور امیر دوست محمد خان انگریز قیدی بنا کر ہندوستان منتقل دو سال کے اندر انگریزوں کی ساری تدبیریں ناکام۔۔ الگرنڈر برنس کا سر تن سے جدا، دھڑ قصائی کی دکان میں لٹکائی۔ برطانوی گورنر پر جرگہ میں حملہ اور قتل۔۔ کمپنی سرکار کی پوری انگریز فوج تباہ۔۔ افغانستان انگریزوں کے قبرستان میں تبدیل۔۔ جوابی کاروائی میں انگریز فوج کے ہاتھوں کابل و جلال آباد کھنڈرات میں تبدیل۔۔۔ ایک دل دہلا دینے والی درناک کہانی کی جھلکیاں ۔۔

کہا جاتا ہے کہ افغانستان گریٹ امپائرز کا قبرستان ہے۔

ایک عشرہ خانہ جنگی کے بعد دوست محمد خان بارکزئی کابل میں مرتکز ہوئے تو ہرات میں کامران سدوزئی اور پشاور پر رنجیت سنگھ کی عملداری آنکھوں میں کھٹک رہی تھی، جبکہ رنجیت سنگھ، خالصہ سرکار کو پنجاب و پختونخواہ میں مضبوط اور وسیع تر کرتے جارہے تھے، اور ایسٹ انڈیا کمپنی “تجارت” کے نام پر افغانستان اور پھر خالصہ (سکھ) راج پر قبضے کا منصوبہ بنا چکے تھے، اور اس سلسلے میں الیگزینڈر برنس 33-32-1832ء سندھ، بلوچستان، پنجاب، پشاور، غزنی، کابل، خیوا، بخارا، ہرات، کندھار، مشہد و خراسان تک میں ایک “تفصیلی سروے” کرچکے تھے۔ جس کا احوال الیگزینڈر برنس کے مراسلات اور تین کتابوں میں تفصیلاً ذکر ہوا ہے۔ [1]

جب 1837ء میں اٹھارہ سالہ دوشیزہ شہزادی وکٹوریہ تخت نشین ہوئی تو برطانیہ ایک نئے دور میں داخل ہوا، اور توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ جارحانہ پالیسی اختیار کی، جس کی گونج ہاؤس آف لارڈز میں بھی دکھائی دی، جب برطانوی مجلس کے لارڈز ہندوستان اور افغانستان کو جدید دور کے تقاضوں اور ایک نئے تہذیب و تمدن کے بھاشن دے رہے تھے۔ یہ سب کچھ برطانوی تکبر اور ڈھونگ تھا، دراصل وہ ہندوستان اور افغانستان کو لوٹنے کے پلان بنا رہے تھے، قتل و غارتگری کے منصوبے تیار کررہے تھے جس کا عکس آپ کو کابل اور جلال آباد سے لیکر جلیانوالہ باغ، اودھ اور دہلی کا اینٹ سے اینٹ بجانے میں ضرور نظر آئے گا۔ برطانیہ کے ہندوستان میں لوٹ مار اور بربادی پر ششی تھرور اپنی کتاب “ An Era of Darkness: The British Empire in India” میں ایک امریکی تاریخ نویس Will Durant کو قوٹ کرکے لکھتے ہیں کہ “ہندوستان پر برطانوی (کمپنی) کی فتخ ایک اعلی تہذیب پر یلغار، ننگی جارحیت، فن سے عاری، لالچ، رشوت، قانونی اور غیر قانونی لوٹ مار، قتل و غارت گری سے عبارت ہے” [2]
پہلی اینگلو۔افغان یعنی انگریزوں اور افغانستان کے درمیان جنگ کے کئی فریق تھے جس کا سرسری ذکر ضروری ہے۔

  1. پہلی اینگلو۔افغان جنگ کا پہلا اور سب سے بڑا فریق برطانیہ تھا، جس نے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے نام نہاد تہذیب اور تجارت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔ برطانوی لٹیروں نے 1599ء ایسٹ انڈیا کمپنی لندن میں قائم کی اور تیسرے مغل بادشاہ اکبر اعظم کے زمانے 1601ء ہندوستان کی پانیوں تک توسیع کرچکے تھے، پہلی لوٹ مار میں پرتگیز جہاز قبضے میں لیا، اسی طرح ولندیزی اور ہسپانوی جہازوں کو بھی لوٹنے لگے، جو ہندوستان سے تجارتی تعلقات کئی عشرے پہلے استوار کرچکے تھے، فرخ سیر کے دور 1717ء میں ڈیوٹی فری لائسنس عطا ہوئی، محمد شاہ رنگیلا جب 1720ء میں سید برادران سے جان چھڑا رہے تھے، تو مراٹھے، انگریز اور آصف جاہ دکنی مغلوں پر ٹوٹ پڑے، اور نادر شاہ افشار 1737ء میں ایران سے احمد شاہ ابدالی کی افغان لشکر کے ساتھ دندناتے ہوئے ہندوستان پر حملہ کیا، دہلی کو تاراج کیا، “کوہ نور” تاج سمیت خزانہ سب کچھ لوٹ لیا، کمپنی، اکبر شاہ دوم کے زمانے میں 1835ء تک پورے ہندوستان پر قبضہ کرچکی تھی، مغل بادشاہ کی جگہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سکہ جاری ہوچکا تھا اور فارسی کی جگہ انگریزی زبان دفتروں میں لازمی قرار پائی، جبکہ برطانیہ نے کمپنی کی حکومت اپنے ہاتھوں میں لے کر گورنر جنرل کا تقرر کرنا شروع کیا تھا۔ [3]
    ہندوستان زمانہ قدیم سے تہذیب و تمدن اور زراعت و مالی طور پر مالا مال تھا اسلئے سکندراعظم سے لیکر پرتگیز ہوں یا ولندیزی، ایرانی ہوں یا افغانی، روسی ہوں یا برطانوی جس میں ہندوستان پر حملے کی طاقت ہوئی انہوں ہندوستان پر حملہ کرکے لوٹ مار مچائی، اب برطانوی ہند چاہتا تھا کہ علاقے میں روس یا فرانس، ایران، پرتگیز، ولندیز یعنی کسی کا بھی کوئی اثر و رسوخ نہ ہو، کمپنی اکیلی بدمعاشی سے تجارت بھی کرے اور حکومت بھی۔


 

  1. دوسرا فریق: روس: روس، ایران اور خلافت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد برطانیہ کے لئے براہ راست خطرہ بن گیا تھا، برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے سے خوش نہیں تھا اور اپنا حصہ مانگ رہا تھا، گو کہ روس آرمینیا، جورجیا، آرمینیا، ترکستان سے لے کر ترکی کے حدود تک قابض ہوچکے تھے، روس نے امیر دوست محمد خان کو پشاور اور شاہ ایران کو ہرات پر حملے کے لئے اُکسایا اور اس کی ابتداء ہرات کے محاصرے سے ہوچکی تھی، روس اس سلسلے میں، دوست محمد خان اور ایران کو استعمال کررہا تھا جیسے انگریز سکھوں اور شاہ شجاع کو استعمال کررہے تھے، اب یہ الگ بات ہے کہ کابل کے مولوی دوست محمد خان کو امیرالمؤمنین کا لقب دے کر سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کررہے تھے اور ہرات کے مولوی عبدالحق ایرانی لشکر کے خلاف وہی فتوای دے رہے جو ہتھیار آج بھی ایران کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔

  2. تیسرا فریق: ایران: ایران کو نادر شاہ کا دور یاد آنے لگا تھا، جو دہلی پر قبضہ کرکے لوٹ مار کرچکے تھے، اور یہ افغانوں کے بغیر ناممکن تھا، لہذا دوست محمد خان بھی ایرانیوں کے ساتھ مل کر احمد شاہ ابدالی والا دور واپس لانا چاہتے تھے، کیونکہ ہندوستان پر حملہ اب اکیلے افغانوں کے بس میں بھی نہیں تھا، شاہ شجاع کے آخری معاہدے کے بعد دوست محمد خان سکھوں کے خلاف جنگ کے بھی قابل نہیں تھے۔

  3. چوتھا فریق: افغانستان یعنی امیر دوست محمد خان: احمدشاہ ابدالی نے نادر شاہ ایران کی فوج میں افغانی لشکر کے جنرل تھے، اور ہندوستان پر حملے میں افغان جنگجوؤں کے ساتھ شریک ہوکر فتح میں اہم کردار ادا کیا، نادرشاہ کی اچانک قتل ہونے پر ایران سے لشکر لیکر ہرات اور کندھار پر قبضہ کرکے 1747ء میں عظیم افغان بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ شمالی افغانستان اور پنجاب سے فارغ ہوکر 1748ء میں ہندوستان پر حملے شروع کیئے اور 1772 میں وفات سے پہلے ہرات، کندھار و خراسان اور دریائے آمو سے لیکر پنجاب اور ہندوستان تک سارا علاقہ قبضہ کرچکے تھے۔ احمد شاہ درانی کی قائم کردہ عظیم افغان بادشاہت انکے نواسے زمان شاہ کے وقت زوال پزیر ہوئی تو شاہ محمو کے دور میں ہرات کے علاوہ مکمل خاتمہ ہوا، اور شاہ شجاع نے ساری عزت خاک میں ملائی۔
    اور اب بارکزئی وہی سدوزئی کے راستے پر گامزن تھے، ویسے تو پائندہ خان بارکزئی کے 21 فرزند، شاہ محمود دُرانی کو 1819ء میں بھگانے کے بعد ایک پیج پر کھبی نہ تھے، مگر کہانی عظیم خان کے بعد شروع ہوتی ہے، جو 1826ء میں سکھوں سے بھاگ کر کابل جاتے ہوئے فوت ہوئے، تو بہت جنگ و جدل کے بعد سردار دوست محمد خان، قرآن پاک پر لکھا ہوا راضی نامہ توڑتے ہوئے کابل پر چڑھ دوڑے، سلطان محمد جو عارضی کابل گورنر تھے، نے شیردل خان سے مدد کی درخوست کی مگر دونوں کو شکست ہوئی، شیر دل کندھار اور سلطان محمد خان پشاور بھاگ نکلے اور دوست محمد خان کابل پر قابض ہوئے۔ چونکہ دوست محمد خان سب سے چھوٹے اور سوکھا انپڑھ بھی تھے لہذا بڑے کندھاری بھائی پردل خان و کہندل خان، شیر دل خان اور پشاور کے چالاک اور مغربی تعلیم یافتہ بھائی سلطان محمد خان (طلائی) سمیت یار محمد خان، پیر محمد خان نے کھبی دوست محمد خان کی حکومت تسلیم نہیں کی۔ دوست محمد خان ایک متفق افغانستان چاہتے تھے، جس میں ہرات بھی شامل ہو، جہاں شہزادہ کامران سدوزئی اور اسکے وزیر یار محمد خان قابض تھے۔ جبکہ دوست محمد خان انگریزوں کو سکھوں سے پشاور واپس کرنے پر بھی مصر تھے، جہاں رنجیت سنگھ قابض تھے اور دوست محمد خان کے بھائی سردار سلطان محمد خان طلائی سکھوں کو باج دیتے تھے۔

  4. پانچواں فریق: سکھ (رنجیت سنگھ): رنجیت سنگھ پنجاب، کشمیر، درجات اور پشاور میں گورونانک کے فلسفے جھاڑ رہے تھے کہ ہندو، سکھ، عیسائی مل کر اس کو پورے ہندوستان اور افغانستان کا سردار بنائیں، یعنی رنجیت سنگھ چندر گپت موریا کی سلطنت بحال کرنا چاہتے تھے، جو ہری سنگھ نلوا کے امیر دوست محمد خان کے نام خط سے واضح ہے، باقی ہوشربا تفصیل خوشونت سنگھ کی کتاب A History of The Sikhsکے دو والیوم اور Ranjit Singh کتاب پڑھیں۔ [4]


 

  1. چھٹا فریق: شاہ شجاع درانی (سدوزئی): جو ہر حالت میں کابل پر قبضہ کرکے بادشاہ بننا چاہتے، اس سلسلے میں وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے اور کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے، شاہ شجاع نے اس سلسلے میں سکھوں اور انگریزوں سے شرمناک معاہدے کئے جس کا ذکر آگے آئیگا۔


 

 

  1. ساتواں فریق: شاہ محمود کے بیٹے اور ہرات کے گونر شہزادہ کامران سدوزئی (درانی) تھے، جو شاہ شجاع کے ساتھ افغانستان کے بادشاہ بننے کے دوڑ میں شامل تھے اور چاہتے تھے کہ کسی صورت وہ کندھار اور کابل پر قبضہ جمائے، اس سلسلے میں کامران اور اس کے وزیر یار محمد خان ایران کے قاجار شاہ اور انگریزوں سے مسلسل رابطوں میں تھے۔


The Great Game in Afghanistan

یہ سب طاقتیں چالاکی سے آپس میں اتحاد بھی کررہے تھے، اور منافقت کے ساتھ ایک دوسرے سے لڑ بھی رہے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرکے علاقوں پر قبضہ کریں، کوئی بادشاہ بن کر تخت نشین ہونا چاہتے تھے تو کوئی دوسرے کو تخت سے گرا کر قبر میں اتارنا چاہتے تھے۔
اب سب کے عزائم سامنے آگئے ہیں اور فریق بھی! ہم پچھلی دو قسطوں میں شاہ شجاع اور انگریزوں، سکھ اور انگریزوں، فرانس اور روس، ایران و روس، سلطنت عثمانیہ اور روس جیسے معاہدوں کا ذکر کرچکے ہیں۔
خراسان اور ہرات تاریخی طور پر ایران کا علاقہ تھا اور ہرات کا ابدالی خاندان ہرات کے روح رواں تھے جبکہ کندھار پر غلجی اور ابدالیوں کا جھگڑا عرصہ سے چلا آرہا تھا۔ کہنے کو نادر شاہ کے قتل ہونے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے ہرات ایرانی تسلط سے آزا د کرایا ، مگر نادر شاہ بھی خراسانی یعنی افغانی ہی تھے جس کی فوج کا ایک بڑا حصہ پشتون قبائیل پر مشتمل تھا۔ شہزادہ کامران اور شاہ ایران فتح علی شاہ کے درمیان 1832ء میں ہرات پر جھگڑا شروع ہوا، تو کامران نے یار محمد خان مشہد بھیج کر صلح کی کوشش کی، مگر حاجی فیروز الدین سدوزئی کے بیٹے ملک قاسم اور شاہ پسند خان، محمد مرزا کے ساتھ ہرات پر حملے کیلئے روانہ ہوئے، کچھ دن جنگ جاری رہنے کے بعد شہزادہ کامران ایرانی شاہ کے سامنے سرنڈر ہوئے اور سکوں پر ایرانی شاہ کا نام لکھے جانے اور 70,000 روپے امیر کشمیری شال بھی تہران بھیجنے پر اتفاق ہوا، کامران کے وزیر یار محمد رہا ہوگئے۔
غیر یقینی حالات کا فائدہ اُٹھا کر انگریزوں نے بطور ٹسٹ فروری 1833ء میں شاہ شجاع کو رنجیت سنگھ، سندھ کے امیروں اور انگریزوں نے اکسایا تو انگریز مشیروں، ہندو، سکھ ، عیسائی لشکر سمیت لدھیانہ سے براستہ سندھ و بلوچستان، کندھار پر حملہ آور ہوئے، رنجیت سے ایک لاکھ روپے نقد اور سندھ و بلوچستان کے اُمراء سے جنگ کرنے اور پانچ لاکھ روپے لوٹنے کے بعد 1834ء کو کندھار پہنچے اور شہر محاصرہ ہوا۔ تو کندھار کے بھائیوں نے بادلِ ناخواستہ قرآن شریف بھیج کر کابل کے بھائی دوست محمد خان سے مدد کی درخواست کی! لیکن دوست محمد خان نے سب سے پہلے انگریزوں سے رابطہ کرکے حال احوال پوچھا کہ کہیں انگریز تو شجاع کمپین کے پیچھے نہیں؟ انگریزوں نے صاف انکار کیا، تب دوست محمد خان بھائیوں کی مدد کیلئے کندھار رونہ ہوئے۔
ادھر انگریزوں اور رنجیت سنگھ نے حالات سے فائدہ اُٹھا کر 1834ء پشاور پر حملہ کرکے قبضہ کیا اورسردار سلطان محمد خان طلائی بھائیوں سمیت باجوڑ کی طرف بھاگ نکلے، جہاں انہیں پتہ چلا کہ دوست محمد ، شجاع سے لڑنے کندھار گئے ہیں، جلال پہنچ کر کابل پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔
امیر دوست محمد خان اور کندھاری بھائی، شاہ شجاع کے طاقتور فوج سامنے ڈھیر ہوئے، مگر شاہ شجاع کے خیمے پر محمد افضل خان نے اچانک حملہ کردیا تو شاہ شجاع بھاگ نکلے، جب لشکر نے شاہ کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو پورا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا، جبکہ شاہ شجاع کے انگریز سپاہ سالار کیمپبل زخمی پکڑے گئے۔
دوست محمد خان نے کندھار میں شاہ شجاع کو شکست دے کر واپس ہندوستان (لدھیانہ) بھگانے پر مجبور کیا اور خود فاتح کابل کی طرف روانہ ہوا تو سردار سلطان محمد خان نے جلال آباد میں بندوق رکھ کر پھولوں کے ہار ساتھ لیئے دوست محمد خان کے ہاں مبارک باد دینے کابل پہنچے۔ یہ سب کچھ دوست محمد خان کو پتہ تھا مگر انہوں نے بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔
اب جبکہ سلطان محمد خان بھی کابل آئے تھے تو دوست محمد خان نے سکھوں سے پشاور واپس لینے کا فیصلہ کیا مگر سکھوں کے خلاف اعلانِ جہاد سے پہلے دوست محمد خان کو افغان درباری علماء نے مشورہ دیا کہ امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیئے بغیر آپ جہاد کا اعلان نہیں کرسکتے، لہذا موقع کو غنیمت جان کر 1834ء امیرالمؤمنین کا لقب اختیار کیا اور بقول خوشونت سنگھ اور فیض محمد کاتب، سکھ” کافروں” کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان کے نئے امیرالمؤمنین نے 1835ء میں سلطان محمد خان کی سرکردگی میں 20 ہزار لشکر پشاور پر حملے کیلئے روانہ کیا اور خود 30 ہزار لشکر جرار کے ساتھ پیچھے پیچھے روانہ ہوئے، مگر سردار سلطان محمد خان سدوزئی (طلائی) “حسب معمول” نے جرگہ کے بہانے ہری سنگھ، ابوطبیلہ (سکھ آرمی کے اطالوی جنرل) اور “ہارلن جوشیہ” (رنجیت سنگھ کے ڈاکٹر اور اب ملٹری مشیر) سے ساز باز کی، اور بھائی دوست محمد خان کو دغہ دے کر رات کی تاریکی میں رنجیت سنگھ کے لشکر سے جا ملے، یوں افغانستان کے امیرالمؤمنین دوست محمد خان نے بغیر جنگ کے ہری سنگھ لشکر کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، اور کابل واپس روانہ ہوئے۔

برطانوی ہندوستان پر 1836ء میں لارڈ آکلنڈ گورنر جنرل مسلط ہوئے تو ایک سال کے اندر کابل، پنجاب (سکھ شاہی) اور ہرات کے حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئے۔

All Roads lead to Kabul.

روس کے بڑھتے ہوئے عزائم کو روکنے کے لئے برطانیہ نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا اور ہنری راولسن کو بطوری ٹرینر ایران بھیجا، تاکہ ایرانی فوج کو روس کے خلاف کھڑا کرسکیں، مگر دراصل یہ ایک جاسوس تھے۔
ادھر شاہ ایران فوت ہوئے تو نئے شاہ نے تخت نشینی کی تقریب میان ہرات پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے فوجی نقل و حرکت شروع ہوئی، سن 1837ء کے موسم خزان میں تہران میں تعینات برطانوی سفیر سر جون مکنل نے لفٹننٹ ہنری راولسن کو اسی سلسلے میں ایک “مراسلہ” کے ساتھ کابل روانہ کیا، تو ہرات کے آس پاس روسی سفارتی اہلکار ویٹکویچ سے ملاقات ہوئی، جو کابل میں نئے امیر کو زار روسی بادشاہ نکولس کی جانب سے “تحائف اور نیک تمناؤں” کا پیغام پہنچا رہے تھے، دونوں کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ دونوں کو پتہ تھا کہ وہ ادھر کیوں ہیں!
بقول “ویلئم ڈارلیمپلی”راولسن نے افغانستان میں “ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن” کا سراغ لگایا تھا اور کابل میں دوست محمد خان اور برطانوی سفارتخانے کو “مخصوص پیغامات” پہنچا کر واپس تہران روانہ ہوئے، جہاں سے مکنل نے برطانوی ہند اور لندن اطلاعات پہنچا کر گھنٹیاں بجائیں۔ تہران میں برطانوی سفیر مکنیل نے کہا کہ “جو ہمارا ساتھی نہیں وہ ہمارا دشمن ہے، ان کے خلاف اعلان جنگ ہے”!
یہ وہی الفاظ ہیں جو 9/11 کے بعد امریکی صدر جورج بش نے دو سو سال بعد دہرائے! اور بش نے بھی افغانستان کا وہی حال کیا جو برطانیہ نے کیا تھا!!!
اس دوران ہندوستان سے الیگزینڈر برنس، لفٹننٹ لیچ، لیفٹننٹ ووڈ اور منشی موہن لال کشمیری کے ساتھ کابل پہنچ گئے تھے، جہاں دوست محمد خان نے فقید المثال استقبال کیا، غازی محمد اکبر خان نے الیگزینڈر برنس کو ہاتھی پر سوار کرکے کابل داخل میں داخل ہوئے تھے۔ [5]
امیر کبیر دوست محمد خان کے دل میں پشاور ایک رستا ہوا زخم بن گیا تھا، تو سکھ جنرل ہری سنگھ نلوا نے ایک توہین آمیر خط لکھ کر زخم پر نمک بھی چھڑک دی، ہری سنگھ نے دوست محمد خان کو قدیم ہندو تاریخ یاد دلاتے ہوئے کابل اس کے حوالے کرنے کا لکھا گیا تھا۔ [6] امیرالمؤمنین دوست محمد خان آگ بگولہ ہوئے اور سکھوں سے دو دو ہاتھ کرنے فیصلہ کرتے ہوئے، اپنے بیٹوں افضل خان اور اکبر خان کی سرکردگی میں ایک بڑا افغان لشکر پشاور پر حملے کے لئے بھیجا، جنہوں نے 1837ء میں درہ خیبر کے دامن میں جمرود کے مقام پر رنجیت سنگھ کی جدید ترین فوج کو شکست دی، سکھ فوج یوروپین جنرلز، ٹرینرز، جدید اسلحہ سے مزین تھا۔ خوشونت سنگھ کے مطابق رنجیت سنگھ لاہور میں نیو سنگھ کی شادی میں مصروف تھے، اور دوست محمد خان نے حالات کا فائدہ اُٹھا کر حملہ کیا، ہری سنگھ نلوا سخت بیمار تھے، ہسپتال سے سیدھے میدان جنگ جمرود پہنچے، ہری سنگھ نلوا نے 30 اپریل کو “پنجابی” لشکر کو حکم دیا کہ افغان لشکر پر فیصلہ کن حملہ کریں، جو سکھوں کے لئے مہنگا پڑا، دو ہفتوں تک جاری خونریز جنگ میں “سراج التواریخ” کے مؤلف“فیض محمد کاتب” کے مطابق ہری سنگھ نلوا سمیت دو ہزار سکھ اور ایک ہزار افغان اور پشتون قبائلی اس “جنگ مغلوبہ” میں قتل ہوئے، جبکہ سکھ اکاؤنٹ خوشونت سنگھ کے مطابق 6,000 سکھ و پنجابی اور 11,000 ہزار پشتون و افغان مارے گئے۔[7]
یہی وہ وقت تھا کہ افغان لشکر اور قبائلی جمرود سے پشاور اور پنجاب پر حملہ آور ہوتے تو راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، سکھوں کا ہارا ہوا لشکر اور بستر مرگ پر لیٹا ہوا رنجیت سنگھ دفاع کی پوزیشن میں ہرگز نہیں تھا، اگر ہری سنگھ نلوا پشتون سرداروں کو نہ خریدتے، جو حاجی خان جیسے سردار بک گئے تھے، جسے کابل واپس ہوتے ہی فارغ کیاگیا، اور دیگر سردار بزدلی نہ دکھاتے تو تعاقب کرکے پشاور پر بآسانی قبضہ کرسکتے تھے، کوئی رکاؤٹ نہیں تھی! مگر سب سے اہم بات یہ کہ بدقسمتی سے امیر دوست محمد خان کے بھائی سردار سلطان محمد خان طلائی پشاور میں رنجیت سنگھ کو باج دینے پر تو راضی تھے مگر اپنے بھائی دوست محمد خان کو امیر المؤمنین ماننے پر تیار نہیں تھے، لہذا ہری سنگھ نلوا کی قتل اور سکھوں کے بھاگنے کے باوجود افغان لشکر واپس کابل بلا لئے گئے۔
جب فاتح لشکر کابل پہنچا توامیر کبیر نے سب سے پہلے رنجیت سنگھ کے نام جوابی خط بھیجا، جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ “اپنا لشکر تیار رکھیں میں پشاور کا قبضہ چھڑانے آ رہا ہوں، رنجیت سنگھ کو ہری سنگھ نلوا کے توہین آمیر خط کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
رنجیت سنگھ نے خط کے جواب میں نہایت مکاری سے جواب دیتے ہوئے امیر دوست محمد خان سے معذرت کی اور سارا ملبہ ہری سنگھ نلوا پر ڈالتے ہوئے پشاور اور ملحقہ علاقوں پر قبضہ سے بھی بری الذمہ ہونے کی کوشش کی، اور دوست محمد خان نے یہ معذرت قبول بھی کی۔ [7]

امیر کبیر دوست محمد خان نے دوسرا خط اپنے بھتیجے کے ذریعے برطانوی ہند کے گورنر لارڈ آکلینڈ کے نام ارسال فرمایا، جس میں پشاور رنجیت سنگھ سے لیکر ان کے حوالے کرنے کا لکھا گیا تھا۔ جس کے جواب میں آکلنڈ نے رنجیت سنگھ سے معاہدے کا بہانہ بنا کر ایسا کرنے سے منع کیا، مگر اب پانی سر سے گزر چکا تھا کیونکہ برطانوی ہند، دوست محمد خان کو ہٹانے اور شاہ شجاع کو کابل پر مسلط کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
امیر دوست محمد خان نے تیسرا خط شاہ ایران کی طرف روانہ کیا، جس میں ہرات پر حملے کے دعوت دی گئی تھی، اس سے پہلے کندھار کے گونر بھی شاہ ایران کے پاس جرگہ بھیج کر دوست محمد کے خلاف مدد کی درخواست کر تھے۔
امیر کبیر دوست محمد خان نے پروایکٹیو ڈپلومیسی شروع کی تھی، کابل میں روسی سفیر کو خاص اہمیت دینی شروع کی کیونکہ روس نے پشاور اور ہرات دوست محمد خان کے جھولی میں ڈالنے کا وعدہ کیا تھا! جو انگریز پس و پیش کررہے تھے۔ کابل میں اب سفارتی ہل چل اور افراتفری مچ چکی تھی، اور خوفناک افواہیں گردش کررہی تھیں۔
دوست محمد خان، ان کے امریکی نژاد مشیر ہارلن جوشیہ، انگریزوں مشیر الیگزینڈر برنس اور روسی ویٹکویچ سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور ماسکو و شملہ کو مراسلے بھیج کر حالات سے آگاہ کررہے تھے۔
ادھر روس بھی شاہ ایران کو ہرات پر حملے کیلئے اکساتے رہے اور بدلے میں ایران کو اسلحہ دینے، سارے قرضے معاف کرنے اور نقد مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ آپ “کو انسیڈنٹ” کہیں یا منظم منصوبہ بندی کہ جیسے ہی شاہ ایران، تہران سے ہرات پر حملے کیلئے روانہ ہوئے، عین اسی وقت شاہ شجاع بھی لدھیانہ سے افغانستان پر حملے کے لئے روانہ ہوئے، یعنی دونوں محاذ کھول گئے۔
شاہ ایران نے “امیر دوست محمد خان کی ہرات پر حملے کی دعوت” قبول کرتے ہوئے نومبر 1838ء میں ہرات پر حملہ کرکے ایک بار پھر محاصرہ کرلیا، اس ایرانی لشکر میں روسی، فرانسیسی اور ولندیزی مشیر بھی تھے، جبکہ امریکی سفیر مکنل بھی محاصرے کے دوران تہران سے ہرات پہنچے!! یہ بات ضرور یاد رہے کہ ہرات پر شہزادہ کامران سدوزئی قابض تھے، جو دوست محمد بارکزئی کو قطعاً قبول نہیں تھے، کیونکہ کامران نے ہی امیر کے بھائی فتخ خان کو بےرحمی سے اندھا کیا تھا، بربریت سے جسم کی کھال اتاری اور نہایت سفاکی سے گلہ کاٹ کر، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بوری میں ڈال دی تھی۔
اور سب سے بڑی بات! روس اور برطانیہ افغانوں اور ایرانیوں کو لڑا رہے تھے، بلکہ افغانوں اور سکھوں کو بھی اسی منصوبے کے تحت لڑایا جارہا تھا! اور آج بھی لڑایا جارہا ہے مگر افغان، ایرانی، پنجابی، ہندو سب اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ذاتی اور خاندانی جھگڑوں کی وجہ اس آج بھی اس عالمی جنگ کا حصہ ہیں۔
کئی ماہ طویل ہرات محاصرے میں ہرات کے افغان ڈٹ کر لڑے، کٹ کر مرے، بھوک و افلاس برداشت کی، غلام محمد غبار اور فیض کاتب کے مطابق، ایرانی لشکر کے خلاف فیصلہ کن حملہ افغانستان کے ہزارہ قبائل نے کیا، جس میں کئی جرنیل سمیت سینکڑوں سپاہی قتل کئے، مگر افسوس کہ بہت سے افغان آج بھی ہزارہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور جو قتل عام کررہے ہیں، اس پر خاموش ہیں، یہ الگ موضوع اس پر کھبی لکھیں گے۔
انگریز جاسوس ہنری پوٹنگر جو پہلے جاسوس بن کر سکول کھول دیا تھا اور مسجد کے امام بن گئے تھے، اب ہرات کے دفاع میں کامران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے تھے، شاہ ایران نے برطانوی سفیر سے پونٹنگر کو ہرات چھوڑنے کی بات کی مگر اب برطانیہ نے ایران پر حملہ کرنے کے لئے فوجی بیڑہ روانہ کیا تھا، جو کرج جزیرے کے سامنے لنگرانداز ہوئی، کیونکہ روسی “ملٹری ابزرور”سائمنوئچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ برطانیہ اور روس کے درمیان سفارتی جنگ اب گریٹ گیم کی صورت اختیار کرچکی تھی، لہذا شاہ ایران، روس اور برطانیہ کے درمیان سینڈوئچ بننے سے پہلے ہرات محاصرہ ختم کرکے تہران واپس روانہ ہوئے۔

دوست محمد خان، کامران خان کے قبضے سے ہرات اور رنجیت سنگھ کے قبضے سے پشاور چھڑانے کی سرتوڑ کوشش کررہے تھے، مگر اب کابل بھی ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آنے لگا، کیونکہ برطانیہ! روس و ایران کے ہرات پر حملے کا بدلہ چکانے کا فیصلہ کرچکے تھے، اور رنجیت سنگھ پشاور (جمرود) میں شکست اور جنرل ہری سنگھ کے قتل کا فیصلہ کرچکے تھے، جبکہ شجاع الملک ہر قیمت پر کابل میں تخت نشین ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے، اور شملہ، لاہور، لدھیانہ میں گٹھ جوڑ کرکے افغاستان پر فیصلہ کن حملے کے لئے منصوبہ بندی بھی م کرچکے تھے۔ برطانوی تاریخ کے اس اہم اور بڑے جنگ کی منظوری وزیر خارجہ لارڈ پالمرسٹن اور گونر جنرل لارڈ آکلنڈ نے دی، جبکہ ہاؤس آف لارڈز کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیاگیا۔[8]

الیگزینڈر برنس جس مشن پر کابل بھیج دیئے گئے تھے وہ مشن ناکام ہوچکا تھا، برنس کو واپس ہندوستان بلا لیا گیا تھا! اس مشن کے ناکامی کے کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ الیگزینڈر برنس جس برطانوی اہلکار کو اپنی رپورٹ ارسال کررہے تھے، وہ کیپٹن کلاؤڈ ویڈ تھے، جو لدھیانہ میں شاہ شجاع کے پاس بٹھا ہوا تھا، اور شاہ شجاع کو افغان بادشاہ دیکھنا چاہتے تھے، یعنی ویڈ ڈبل ایجنٹ تھے!
اسی طرح برنس دوست محمد خان کی قربت حاصل کرچکے تھے، برنس اس حق میں تھے کہ دوست محمد خان ایک طاقتور امیر ہے اور افغانستان کو متحد رکھ سکتے ہیں لہذا برطانیہ کو انہی سے معاملات طے کرنے چاہیے، جبکہ لدھیانہ میں برنس کے ایسے مراسلے دبائے جاتے تھے یا ردوبدل کرکے آگے بھیج دیئے جاتے تھے، برنس ٹرپل ایجنٹ تھے، جو بیک وقت برطانوی راج، رنجیت سنگھ اور دوست محمد خان کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے تھے، جبکہ الیگزینڈر برنس کے منشی موہن لال کشمیری کو اگر سب سے بڑا ایجنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ جو کارنامے موہن لال کشمیری نے سرانجام دیئے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں مگر کام نکالنے کے بعد جو دھوکہ یا دھکہ موہن کو لال دیا گیا وہ بھی برطانوی راج کے گھٹیا ترین کارناموں میں سے ایک ہے۔

روس اور ایران ہرات سے پسپا ہوکر جنگ ہار گئے تھے، جبکہ دوست محمد خان جمرود میں جہاد کرکے جیتی ہوئی جنگ ہار گئے تھے، کیونکہ وہ پشاور پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوئے تھے۔
برطانیہ کا افغانستان پر حملے کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا!! مگر انگریزوں نے ضد اور انا کا مسئلہ بنایا، بین الاقومی سفارتی تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں کے جان و مال سے کھیلنے کا فیصلہ کیا تھا!!!

لکھنے والے تو “معاہدہ گندمک” کو افغان تاریخ کا سیاہ باب اور “ڈیورنڈ لائن معاہدے” کو شرمناک قرار دے کر “لر پختون و بر پشتون” کے درمیان تقسیم قرار دے رہیں، مگر حقیقت میں پہلی اینگلو۔افغان جنگ شروع ہونے سے پہلے پختونوں اور پشتونوں کو احمد شاہ درانی (ابدالی) کے نواسے شاہ شجاع الملک سدوزئی (درانی) نے انگریزوں اور رنجیت سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ شجاع الملک نے 28 جون 1838ء کو لاہور میں انگریز ویلیم مگناٹن اور رنجیت سنگھ کے ساتھ ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کئے جو 18 ذلت آمیز شقوں پر مشتمل ہے۔ [12] & [11] & [10]
اس معاہدے کے تحت شجاع المک نے بلوچستان و سندھ انگریزوں کے حوالے کیا اور دریائے سندھ کے دونوں اطراف کے، جس میں پورا پنجاب سمیت بہاولپور، ملتان و کشمیر اور پورا پختونخواۂ، ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ، بنوں، ٹانک وزیرستان، پشاور اور خبیر تک علاقے شامل ہیں، سے رنجیت سنگھ کے حق میں دستبردار ہوئے۔
لارڈ آکلنڈ نے “شملہ مینفسٹو” کا اعلان کیا، جس کے تحت شاہ شجاع کو افغانستان کا بادشاہ تسلیم کیا اور امیر کبیر دوست محمد خان کو ہٹانے کے لئے اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان پر حملوں کا حکم دیا۔
شجاع الملک نے انگریز ، ہندو، سکھ اور عیسائی لشکر لے کر سندھ و بلوچستان سے ہوتے ہوئے کندھار پر حملہ کیا، شجاع 4 مئی 1839ء کو کندھار پہنچ چکے تھے۔ شاہ شجاع اور انگریز فوج کا ہندوستان سے افغانستان تک کا سفر کافی دشوار اور مہلک سفر تھا، یہ روداد آپ سیتا رام کی کتاب From Sepoy To Subedar سمیت دیگر کتب میں پڑھ سکتے ہیں۔ [13]
شاہ شاجاع سے پہلے موہن لال کشمیری کندھار پہنچ کر قبائلی سرداروں اور مرکزی جامع مسجد کے امام کو چند کوڑیوں کے عوض خرید چکے تھے، باقی پنشن کا وعدہ کیاگیا، کندھار شہر کے والی وہی حاجی خان “خائن” تھے جو جمرود کے جہاد میں افغان کمانڈر تھے اور رنجیت سنگھ سے ملے ہوئے تھے، جمرود جنگ میں اگر پشاور فتح نہیں ہوا تھا تو حاجی خان اور سردار سلطان جیسے خائن ذمہ دار تھے، دوست محمد خان نے فوری برطرف کیا تو وہ کندھار بھاگ آیا تھا! اب ایک بار پھر شجاع اور انگریزوں سے مل گئے، اور دوست محمد خان کے کندھاری بھائی انگریز۔شجاع لشکر کے خوف سے ایران کی طرف بھاگ کر وہاں “پناہ گزیں” ہوئے، شجاع الملک سیدھے کندھار میں اپنے دادا احمد شاہ ابدالی کے مزار پر جاکر “شاہی چغہ” زیب تن کیا اور بادشاہت کا اعلان بھی کردیا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی کندھار کے ابدالی قبیلہ کے پوپلزئ شاخ سے اور اسی طرح “چغہ” استعمال کرتے رہیں ہیں۔
طالبان رہنما ملا عمر جب 1995ء کندھار سے اُٹھ کر کابل پر حملہ آور ہوئے تھے، تب انہوں نے بھی احمد شاہ ابدالی کے مزار سے ابتداء کی تھی۔
انگریزوں نے کندھار فتح کرنے کے بعد شاہ شجاع سے ایک اور معاہدہ کر ڈالا، جس میں سہ فریقی لاہور معاہدے کے ساتھ مزید شقیں شامل کرکے شجاع کے ہاتھ، پاؤں کے ساتھ منہ بھی بند کردی گئی۔
جب رنجیت سنگھ 27 جون 1839ء کو لاہور میں آخری سانسیں لے کر فوت ہوئے تو شاہ شجاع انگریز لشکر لیکر کندھار سے براستہ غزنی، کابل پر حملہ آور ہوئے، انگریزوں کا وقتی ساتھی اور افغانوں کا ایک دشمن منظر سے ہٹ گیا۔ اب انگریزوں کے خیبر اور کرم کے راستے افغانستان پر حملے کا راستہ بھی کھول گیا، جو پہلے انگریز جرأت نہیں کرسکتے تھے۔
غزنی کے مضبوط قلعہ میں دوست محمد خان کے بیٹے غلام حیدر خان تعینات تھے، جو بہادری سے لڑے، خونریز جھڑپیں ہوئیں اور انگریز لشکر کو دن میں تارے نظر آنے لگے! جب قلعہ فتح نہیں ہورہا تھا، تو موہن لال نے پھر کام دکھایا! اس بار عبدالرشید بارکزئی، امیر دوست محمد خان کے بھتیجے خریدے گئے، انہوں نے قلعے کے دروازوں کے راز فاش کئے اور انگریز فوج گیٹ بارود سے اُڑا کر قلعے میں داخل ہوئی اور بہادر افغانوں کا قتل عام کیا، 200 انگریز فوجی مارے گئے اور 500 افغان فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 1600 گرفتار ہوئے۔ یوں غزنی بھی فتح ہوا۔
شاہ شجاع جو غزنی قلعے سے دور جنگ کا نظارہ کررہے تھے، اس پر غلجی قبائل کی لشکر نے حملہ کیا، انگریز لشکر بھاگم بھاگ وہاں پہنچ کر شجاع کو موت سے بچایا، یہاں پچاس غلجی قبیلے کے افراد گرفتار ہوئے جو شاہ شجاع نے اسی وقت سر تن سے جدا کرنے کا حکم صادر فرما کر قتل کردیئے۔ یوں غلجی قبائل مزید غیض و غضب میں مبتلاء ہوئے، جس کا خمیازہ بہت جلد انگریزوں اور شاہ شجاع نے چکانا تھا!!!

غزنی کا قلعہ 998ء میں محمود غزنوی کے حملے کے بعد پہلی دفعہ غیرملکیوں کے ہاتھ فتح ہوا تھا اور غزنی شہر نے علاء الدین جہاں سوز کے ہاتھوں جلانے کی بعد تباہی دیکھی۔
شاہ شجاع اور انگریز 30 جولائی 1839ء کو غزنی سے ہوتے ہوئے، کابل پر طرف لشکر انداز ہوئے، تو امیر دوست محمد خان نے تسلیم ہونے کا فیصلہ کرکے انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، مگر انکی درخواست قبول نہیں کی گئی، یہ جنگ ختم کرنے کا اچھا موقع تھا مگر انگریزوں کو خون خرابہ کرنے کا شوق تھا! امیر کبیر اب مزار شریف کی طرف بھاگ نکلے، اور وہاں سے ترکستان جا کر پناہ مانگ لی۔
ادھر پشاور کے بھائی! سردار سلطان محمد خان طلائی اور دوسرے اب انگریزوں کے پولیٹکل ایجنٹ، تحصیلدار اور پٹواری بن کر پشاور اور کوہاٹ میں نوکری کرنے لگے، غازی اکبر خان بامیان میں چھُپ گئے۔
شاہ شجاع الملک درانی (سدوزئی) 1839ء کے اواخر کابل میں تخت نشین ہوکر افغانستان کے بادشاہ بن گئے۔
افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہوا، بارکزئی خاندان بیس سال سے افغانستان کے حکمران تھے، اب ایک بار پھر احمد شاہ ابدالی کے نواسے شجاع الملک سدوزئی انگریز، ہندو اور سکھوں کے کندھو پر بیٹھ کر افغانستان پر قابض ہوئے، یہ قبضہ افغانوں نے دل سے قبول نہیں کیا! کیونکہ جو شرمناک معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق شاہ شجاع صرف صدارتی محل تک محدود تھے باقی سب کچھ انگریز کے ہاتھ میں تھا، داخلہ، خارجہ اور خزانہ! سب محکمے انگریزوں کے قبضے میں تھے۔ [14]
گو کہ “حسب معمول“ افغانوں نے نئے بادشاہ کا پرتپاک استقبال کیا مگر شاہ شجاع نے بادشاہ بنتے ہی مخالفین سے بدلہ لینے کا آغاز کیا اور اپنے افغان بھائیوں کو حقارت سے دیکھ رہے تھے، شاہ شجاع لدھیانہ میں ہی سفاک ہوگئے تھے، جو لوگوں کے ناک اور کان کاٹ کر سزاء دیتے تھے، اب مزید وحشی بن گئے تھے۔
روس جب “ گریٹ گیم یا گئمبل” ہار گئے تو امیر دوست محمد خان کو ترکستان سے رہا کرکے پھر سے افغانستان کی طرف روانہ کیا، جس نے لشکر جمع کرکے مزار شریف سے جنگ کا آغاز کردیا، اور غازی محمد اکبر خان نے بامیان سے بغاوت کا علم اُٹھا کر جلال آباد کی طرف پیش قدمی شروع کی، جبکہ کابل میں افغان سرداروں نے قرآن پاک پر قسم اُٹھا کر بغاوت کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی، لاوا پھٹنے والا تھا۔
افغانستان میں مختلف قبائل کا بڑا اثر و رسوخ ہمیشہ سے رہا ہے، اس دفعہ غلجی (خلجی) سمیت کئی افغان قبائل اور مولویوں نے بغاوت میں سردار دوست محمد خان اور محمد اکبر خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یاد رہے افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی احمد زئی کا تعلق بھی غلجی قبیلے سے ہے اور طالبان کے ہاتھوں کابل میں قتل ڈاکٹر نجیب اللہ کا تعلق بھی احمد زئی غلجی قبائل سے تھا۔
انگریزوں نے کابل میں جو “عیاشیاں” شروع کی تھی وہ سن کر افغانوں میں لاوا پک رہا تھا۔ جس چنگاری سے آگ بھڑک اُٹھی، وہ یہ تھا کہ نومبر 1841 میں الیگزینڈر برس ایک بڑے سردار کی گرل “فرینڈ” اُٹھا کر اپنے گھر لائے یا وہ بھاگ کر آئی! سردار ، مولوی سمیت قبیلہ اب برنس کے لئے موقع ڈھونڈ رہے تھے، وہ موقع ہاتھ آگیا تھا! افغان سردار نے لڑکی واپس کرنے کے لئے لوگ بھیجے، تو برنس نے انہیں مارا پیٹا اور گالیاں دے کر واپس کردیئے، ایک سال کے اندر اندر پورا افغانستان بغاوت کے لئے تیار ہوگیا تھا، کیونکہ انگریز اور شاہ شجاع افغانوں کو ذلیل کررہے تھے۔افغان بغاوت کے لئے تیار تھے، موہن لال کشمیری کابل، جلال اور مزار شریف کے حالات بہم پہنچا رہے تھے، [15] مگر مگناٹن اور برنس لارڈ آکلنڈ کو کابل مکمل “پرسکون” ہے کے اطلاعات پہنچا رہے تھے۔ “جیسے اب اشرف غنی اور زلمے خلیل زاد پرسکون ہیں” مگر سب کچھ ٹھیک نہیں تھا، اور نہ اب ٹھیک ہے۔

Catastrophic British Retreat from Kabul.

افغان سردار نے الیگزنڈر برنس کے گھر پر دھاوا بول دیا،برنس “بیڈ روم” میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، پرتشد ہجوم الیگزنڈر برنس کو گھر سے باہر گھسیٹ کر گلی میں لے آئے، شدید غصہ افغان قبائلی ہاتھوں میں تلوار اور تیغ و تبر لئے تیار کھڑے تھے، افغانوں نے کابل میں تعینات انگریزوں کے نائب گورنر الیگزنڈر برنس کے جسم کو پلک جھپکتے میں ہی ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کردیا، برنس کا سر کاٹ کر گلیوں میں فٹبال کھیلتے رہے، اور دھڑ کابل بازار میں قصائی کے دکان پر لٹکائی۔
موہن لال کشمیری نے ایمرجنسی میں کلمہ پڑھ کر جان بچائی، اور “پیسے تھما کر” محفوظ مقام پر پہنچ گئے، جہاں سے رپورٹس پہنچانا نہیں بھولے۔ فتح مکہ کے وقت بھی بہت سے مشرکین مکہ نے یہی حربہ استعمال کیا تھا!!!۔ آپ موہن لال کشمیری تالیف کردہ کتب اور سوانح حیات ضرور پڑھیں تاکہ آپ کو اپنے شرفاءِ شہر اور علماء شہر کا پتہ تو چلے۔ [15] & [16]

کابل میں اب مکمل طور پر جنگل کا راج تھا، خوف ہراس کا ماحول تھا اور وحشت سناٹا چھایا ہوا تھا۔
گورنر مگناٹن صاحب مذاکرات کے لیے ایک جرگہ میں پہنچے، تو جرگے میں ان پر حملہ ہوا اور قتل ہوئے، اب انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد شروع ہوچکا اور انگریز جس جگہ کیمپ بنا کر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے “ویسے وہاں آجکل امریکی سفارتخانہ ہے” مگر اس وقت وہ علاقہ کافی دور تھا لہذا انگریزوں کے راشن اور ہتھیاروں پر بھی افغانوں نے قبضہ کیا!
انگریز جیتی ہوئی جنگ ہارگئےاور کابل سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی تمام فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا کیونکہ نااہل انگریز کمانڈر جنرل الفنسٹن خود گھوڑے سے گرے اور گھوڑا اسکے اوپر گر کر موصوف ہلاک ہوئے، اب گونرر جنرل لارڈ آکلنڈ کے پاؤں سے زمین سرک چکی تھی، انکے پاس کوئی راہ حل نہیں تھا۔
کمپنی سرکار کی بہادر فوج صرف دو ہفتوں میں افغانوں کے سامنے سرنڈر ہوئے اور تیسرے ہفتے ہتھیار ڈال کر کابل سے 18,000 ہزار افراد ہندوستان براستہ جلال آباد روانہ ہوئے، 6 جنوری کو افغانستان میں ایسی برفباری ہوئی کہ قافلے کے پاؤں ایک فٹ برف میں دھنس جاتے اگلہ قدم اُٹھانا مشکل ہورہا تھا اور یہ انگریزوں کے لئے تو مشکل نہیں تھا مگر پنجاب کے سکھ اور ہندو اہلکاروں کےلئے نہایت دشوار تھا جنہوں نے برفباری زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی، اب غازی محمد اکبر خان جلال آباد پہنچ کر انگریز فوج کے قافلے کو گھیر لیا تھا! افغان قبائل اب جوق درجوق دوست محمد خان اور غازی اکبر خان کے لشکر میں شامل ہورہے تھے، [16] پہلے حملے میں تین چار ہزار انگریز و اتحادی فوج قتل ہوئی، دوسرے دن حملے میں پانچ، چھ ہزار قتل ہوئے اور “گندمک” تک پہنچتے ہوئے صرف دو سو انگریز رہ گئے تھے جنہوں نے آخری گولی تک مقابلہ کیا، مگر سب کے سب غازی محمد اکبر خان کے لشکر کے ہاتھوں بے دریغ قتل ہوئے،صرف ایک بندہ ڈاکٹر ویلیم برائڈن زندہ بچ کر جلال آباد پہنچے، تو وہاں تعینات انگریز افسر نے پوچھا کہ لشکر کہاں ہے؟ برائڈن نے کہا میں ہی لشکر باقی ہوں!!!
مگر برائڈن کو پتہ تھا کہ کئی سو بندے لاپتہ اور دھر لئے گئے ہیں، اس لشکر میں سے پانچ ہزار بندے زندہ پکڑ کر ترکستان کے غلام بازاروں میں بیچے گئے۔ ترکستان کی منڈی میں اس سے پہلے ایرانی، ہزارہ اور قزلباشوں سے بھری ہوئی تھی، اب انگریز بھی پہنچ گئے۔ ان غلام منڈیوں کی۔ تفصیل آپکو موہن لال، برنس اور ویلئم ڈالریمپلی سمیت ان سب لوگوں کے کتابوں میں تفصیل سے ملے گی جنہوں نے بخارا، خیوا، ثمرقند کا سفر کیا۔
امیر دوست محمد خان کابل جا کر انگریز فوج کے سامنے سرنڈر ہوئے جنہیں ہندوستان لے جا کر قید کر لئے گئے۔
انگریزوں کی لگ بھگ 60,000 فوج افغانستان میں موجود تھی، جو جہاں افغانیوں کو نظر آیا، مار دیئے گئے، پہاڑوں اور صحراؤں کے راستوں پر جسم ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ [17]
لارڈ آکلنڈ نے بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے جنرل پولاک کو افغانستان پر تین جانب سے حملے کا حکم دے دیا۔ بلوچستان کے راستے کندھار، خیبر کے راستے جلال آباد اور وادئ کرم کے راستے غزنی، تین اطراف سے انگریز فوج کابل پر حملہ آور ہوئی۔
اگریز فوج نے افغانستان جو تباہی مچائی، تین سو سال پرانے بازار اور گلی کوچے ویران کردیئے، کابل کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا اور جلال آباد میں بےگناہ لوگوں کا قتل عام کیاگیا، جنہوں نے انگریز فوج کا ساتھ دیا تھا، شاہ شجاع کیسے قتل ہوئے؟ دوست محمد خان کو انگریز واپس کابل لاکر ایک دفعہ پھر افغان امیر مقرر کردیئے گئے۔ یہ سب کچھ اگلی قسط میں، انشاءاللہ

جن انگریزی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

 

  1. Travel into Bokhara; Being the account of a journey from india to Cabool, Tatary and Persia; Also, A voyage on the Indus from the sea to Lahore: 3 Volumes.

  2. An Era of Darkness: The British Empire in India: by Shahi Tharoor. P 27

  3. The History of British India: by James Mills; Volume 1 of 6: page 23

  4. Ranjit Singh: by Khushwant Singh
    4-1: &: A History of Sikhs: by Khushwant Singh. Vol 1 & 2.

  5. History of The War in Afghan; John William Kaye; Vol:1, P: 213

  6. The History of Afghanistan: (Siraj UtTawarikh); by Faiz Kateb; Vol 1, P 196-213 (Brill)

  7. A History of Sikhs: by Khushwant Singh. Vol 1; Oxford; Page 275- 288

  8. The Great Game on Secret Service in High Asia; by Peter Hopkrik, P 148-165

  9. Signal Catastrophe; The Story of the Disastrous retreat from Kabul by Patrick Magrory.

  10. A Comprehensive History of India; Vol 11: P; 317

  11. Harvard Historical Studies; Vol 43; P 82

  12. A Brief Political History of Afghanistan; by Abdul Ghani, ‎Abdul Jaleel; Page 281

  13. Afghanistan in the course of history; Ghulam M. Ghobar Vol 1

  14. From Sepoy to Subedar: Sita Ram

  15. Journal of a Tour through the Punjab, Afghanistan, Turkistan, Khorasan and part of Persia in company with Lt, Burnes and Dr Gerard: Reprint Lahore. Mohen Lal 1834.

  16. Life of The Amir Dost Mohammed Khan, of Kabul: with his political proceedings with English, Russian and Persian Govts; including Victory and Disaster of the British Army in Afghanistan; London. 1846.

  17. The Return of a King, The Battle for Afghanistan: by William Dalrymple


جن پشتو، اور فارسی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. فغانستان د تاریخ پہ تګلوري کې۔ میر غلام محمد غبار۔

  2. پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے۔ بہادر شاہ کاکا خیل۔

  3. د افغانستان تاریخی پیښلیک۔ عبدالحئ حبیبی۔

  4. د کابل سلطنت؛ الفنسٹن۔ پشتو ترجمہ؛ حسن کاکڑ۔

  5. واقعات شاہ شجاع: فارسی۔ شاہ شجاع۔

  6. نوایِ معارک (فارسی): مرزا محمد عطا۔

  7. سراج التواریخ (فارسی)؛ فیض محمد کاتب

احمد طوری سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔