عمران خان پاک فوج کے خلاف اپنی جنگ ہار گئے؛ دی اکانومسٹ

عمران خان پاک فوج کے خلاف اپنی جنگ ہار گئے؛ دی اکانومسٹ

یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب عمران خان ایک ایسے شخص کے روپ میں نظر آ رہے تھے جس نے پاکستان کے طاقتور جرنیلوں للکارا تھا اور ان سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ 9 مئی کو رینجرز کے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے ایک ہی دن بعد سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا تھا حالانکہ ان کے مشتعل حامیوں نے بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر میں موجود فوجی تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان کی حیثیت سے جنہیں پُرعزم کارکنوں کی حمایت حاصل تھی اور جو پاکستانی فوج سے بظاہر قطعاً خوف زدہ نہیں تھے، عمران خان نے رواں سال کے آخر میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں اپنی ہی جیت کے راستے میں مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔

اس واقعے کے بعد بمشکل تین ہی ہفتوں میں عمران خان کے گرد کھڑی سیاسی دیواریں ان کے اپنے ہی اوپر ڈھے گئیں۔ 1996 میں قائم ہونے والی عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو پاکستانی جرنیلوں نے جواباً توڑ کر رکھ دیا ہے۔ بے شمار سینیئر رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کھلے عام اعلان کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ عمران خان جنہیں کرپشن اور توہین مذہب سمیت درجنوں الزامات کا سامنا ہے، ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور توقع ہے کہ انہیں کم سے کم طویل سیاسی جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے پہلے سے کمزور سویلین ادارے ایک مرتبہ پھر فوج کے مضبوط تسلط میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اب چاہے وہ فوج کے احکامات کے تحت کر رہی ہے یا پھر سراسر موقع پرستی کی بنیاد پر، شہباز شریف کی حکومت پاکستان تحریک انصاف کے خاتمے کی حمایت کر رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں فوری طور پر سیاسی اور معاشی استحکام لانے کی اشد ضرورت ہے۔ پچھلے سال کے دوران پاکستان کی معیشت میں برائے نام ہی نمو نظر آئی۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث فی کس سالانہ آمدنی 200 ڈالر کمی کے ساتھ 1568 ڈالر فی کس رہ گئی۔ اندازے کے مطابق مئی کے دوران افراط زر کی شرح بلند ترین سطح 37 فیصد تک پہنچ گئی۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے رہ گئے ہیں کہ بمشکل ایک ہی مہینے کی درآمدات کے لئے کافی ہیں، اس بنیاد پر ملک ڈیفالٹ کے حقیقی خطرے سے دوچار ہے۔ رواں ہفتے آئی ایم ایف نے بھی حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے آئینی ضابطوں کا احترام کرے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ آئی ایم ایف کا طویل عرصے سے رکا ہوا 1.1 بلین امریکی ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے سے پہلے پاکستان کو شراکت دار ملکوں سے مالی امداد ضرور حاصل کرنا ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ چین جون کے مہینے میں پاکستان کو 2.3 بلین ڈالر کا قرض جاری کر دے گا۔

عمران خان کے حالیہ زوال کی ستم ظریفی دیکھیں کہ مخالف سیاسی جماعتوں بالخصوص نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن کو ختم کرنے کے لئے عمران خان کو کھڑا بھی فوج ہی نے کیا تھا مگر تب عوام کی اکثریت کو اس منصوبہ بندی سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ 2018 میں جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو بعض مبصرین نے ان کی حکومت کو سول ملٹری ہائبرڈ رجیم کا نام دیا تھا۔ تاہم فوجی جرنیل آخرکار عمران خان کی تماش بینی اور نرگسیت سے بیزار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں پچھلے سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے عمران خان کو حکومت سے بے دخل کر دیا گیا۔

9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے فوج کی عمارتوں پر ہونے والے حملے غیر معمولی تھے جن میں لاہور میں کور کمانڈر کے گھر کی توڑ پھوڑ بھی شامل تھی اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ جرنیلوں کے لیے یہ حملے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث تمام 'منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، ساتھ دینے والوں اور مجرموں' کے خلاف کریک ڈاؤن کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے بعد سے پی ٹی آئی کے پشیمان رہنما یکے بعد دیگرے کیمروں کے سامنے آ کر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے عمران خان سے راہیں جدا کر رہے ہیں اور فوج کے ساتھ وفاداری کا عہد کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت مبینہ حملہ آوروں کے ساتھ پُرامن مخالفین کو بھی حراست میں لینے کے لئے کریک ڈاؤن کا حربہ استعمال کر رہی ہے۔

جرنیل اب غور کر رہے ہوں گے کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ماضی میں ان جرنیلوں کی جانب سے ایسے سویلین سیاست دانوں جنہوں نے فوج کو مایوس کیا، کے خلاف ہونے والی مہمات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالا جائے گا، جلاوطنی پر مجبور کیا جائے گا، سیاست سے انہیں نااہل قرار دیا جائے گا اور اگرچہ اس کے امکان کم ہیں تاہم ہو سکتا ہے کہ انہیں بچی کھچی پارٹی کے ساتھ انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی جائے۔ یا فوجی جرنیل یہ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انتخابات نہیں کروائے جائیں گے۔ افواہیں چل رہی ہیں کہ ملک میں انتخابات کے بجائے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے گی۔ ذاتی حیثیت میں عمران خان ابھی بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ 'پی ٹی آئی کے جتنے مرضی لوگوں کو توڑ لو' لیکن قبل از وقت انتخابات منعقد کرواؤ۔

ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام قائم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان کو سائیڈ لائن کرنے سے ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئے گی۔ شہباز شریف یا جس کے بھی ہاتھ میں جرنیل آنے والے دنوں میں ملک کی قیادت سونپیں گے انہیں پی ٹی آئی کے بڑی تعداد میں موجود حامیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جرنیلوں کو بھی اس مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا سیاست میں جن کی مداخلت کو بنیاد بنا کر عمران خان نے انہیں پاکستانیوں کے غصے کا اصل ہدف بنا دیا ہے جو حق بجانب بھی ہے۔ ایک سیاسی مبصر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ 'فوج باز نہیں رہ سکتی۔ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی خواہش منہ زور ہے'۔ اور آج سے پہلے فوج اس طرح شکست خوردہ نظر نہیں آئی جیسی اب دکھائی دے رہی ہے۔




یہ مضمون برطانوی ہفتہ وار جریدے The Economist میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

دی اکانومسٹ ہفت روزہ برطانوی جریدہ ہے۔