9 مئی کو جو کچھ ہوا اور جس نے بھی کیا اس کو نہ تو صحیح کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سانحہ کے ملزموں کو عدالتی کارروائی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس سانجے کی تحقیق سے تو کسی کو بھی انکار نہیں مگر اس کی تحقیق کون کرے گا، اس پر تحفظات اور اعتراضات ضرور موجود ہیں۔ پہلے تو عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ آتا رہا ہے مگر اب لائرز کے ایک فورم نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے کی مخالفت کر دی ہے۔ اس طرح کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یہ مطالبات اگر پورے نہ ہوئے تو وکلا کے تحفظات تحریک کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل بارے جو بحث چل رہی ہے اس پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی ہے لیکن میرے خیال میں تو اس کو 184 (3) کے تحت نہیں سنا جا سکتا کیونکہ اس معاملے میں نا تو کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور نا ہی یہ مفاد عامہ کا مسئلہ بنتا ہے۔ اس بارے پاکستان کا قانون واضح ہے۔ ہاں اگر کارروائی کے دوران کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس پر ضرور عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
آرمی ایکٹ 1952 کی دفعات 2 (1) (d) (iii) کے تحت سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ 2015 میں کی گئی ترمیم کے مطابق اگر کوئی 'پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے، جنگ کرے یا حملہ کرے، پاکستان کی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا پاکستان میں کسی بھی سول یا فوجی تنصیبات پر حملہ کرے' تو کسی بھی شہری کے خلاف وفاقی حکومت کی اجازت سے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت بھی فوج کو حکم دے سکتی ہے۔
پہلے بھی ان عدالتوں میں ٹرائل کی مثال پاکستان میں موجود ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی فوجی عدالتیں بنائی گئیں تھیں اور موجودہ سانحہ کسی طرح سے بھی دہشت گردی سے کم نہیں۔
انسانی حقوق ہر انسان کے بنیادی حقوق ہیں جن کا تعلق انسان ہونے سے ہے اور دنیا کے تمام انسان کہیں بھی رہتے ہوں سبھی ان کے برابر کے حق دار ہیں۔ ان حقوق کو انسان سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا لیکن انسان کا شہری ہونا اس کو اس ملک کے کسی خاص قانون سے استثنیٰ نہیں دیتا۔ شہریت انسانی حقوق میں نہیں آتی۔ اگر کوئی شہری کسی قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہاں انسانی حقوق ان کے خلاف کارروائی میں شفافیت، غیر جانبداری اور مؤقف کو سنے جانے یا اپنی بے گناہی کے ثبوت دینے کے حق کو یقینی بناتے ہیں۔ لیکن اس میں ملزم یہ مؤقف نہیں لے سکتا کہ وہ جرم تو کسی اور علاقے میں کرے اور کہے کہ اس کے خلاف مقدمہ اس کے اپنے علاقے میں چلایا جائے بلکہ جہاں وہ جرم کرے گا اسی ملک، علاقے یا قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ان لوگوں سے میرے چند سوالات ہیں جو سویلین کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کیا جہاں جرم ہوا ہے وہاں پر نافذ قانونی دائرہ اختیار کو نہیں دیکھا جانا چاہئیے؟ کیا ان عدالتوں کی آئینی و قانونی حیثیت موجود نہیں؟ کیا اس طرح کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں؟ کیا ان فیصلوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی موجود نہیں؟ ان نکات کی روشنی میں اگر ان کے پاس ان پر اعتراض کرنے کا جواز موجود ہے تو ان کو حکومت کے سامنے رکھنا چاہئیے یا اس کو عدالت میں چیلنج کریں مگر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قطعاً بھی نہیں ہونی چاہئیے۔
ظاہری طور پر تو اس معاملے میں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں پائی جاتی اور نا ہی کوئی قانونی اعتراض ان عدالتوں پر اٹھایا جا سکتا ہے البتہ اس میں سیاسی خدشات ضرور موجود ہیں جن کا حل بھی سیاسی معاملات سے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے جس کا ایک طریقہ پارلیمان کے ذریعے قانونی اصلاحات لانا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ہماری سول کورٹس کا تو موجودہ حالات میں ان کی غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر ان کا عمل خوب عکاسی کر رہا ہے۔
اس وقت اگر کوئی آئینی ادارہ سب سے زیادہ متنازعہ نظر آ رہا ہے تو وہ عدلیہ ہے جس پر نا صرف عوام اور پارلیمان بلکہ ادارے کے اندر سے سہولت کاریوں اور جانبداری کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ عدالتوں کے اندر زیر بحث مقدمات میں ججز پر مفادات کے ٹکراؤ کے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں مگر ججز ان کا کوئی اثر ہی نہیں لے رہے۔ تو ایسے حالات میں جب ان واقعات میں ملوث لوگوں کے ہماری عدلیہ کے اندر تعلقات کی مبینہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہوں اور ان کے فیصلوں پر خود حکومت ثبوتوں کے ساتھ عدالتی کارروائیوں کو چیلنج کر رہی ہو تو ایسے میں کیا کوئی سول عدالتوں سے شفاف، غیر جانبدارانہ اور انصاف کے اصولوں پر مبنی انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے؟
یہ سوال بھی بنتا ہے کہ ان کے اعتراضات کو اگر قانون سے ہٹ کر بھی لیا جائے تو کیا اس پر عوام یا سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ سول لوگوں کے مقدمات سول کورٹس میں ہی چلنے چاہئیں؟ کیا حکومت اور سیاسی جماعتیں سول کورٹس کی کارروائیوں پر جانبداری اور سہولت کاری کا الزام نہیں لگا رہیں اور عدالتیں اپنے عمل سے اس مؤقف کو تقویت نہیں بخش رہیں؟ کیا عوام اور سیاست دان عدالتوں کے سامنے احتجاج نہیں کر رہے؟ کیا لیک ہونے والی مبینہ آڈیوز اس بات کی تصدیق نہیں کر رہیں کہ یہ مبینہ الزامات ٹھیک ہیں؟ کیا ان آڈیو لیکس کے اندر فوج کے مارشل لاء لگانے کی خواہشات کا اظہار نہیں کیا جا رہا؟ اس کی مطلب ہوا کہ ان لوگوں کو بھی اپنے سول اداروں سے زیادہ عسکری اداروں پر اعتماد ہے۔
انہی آڈیو لیکس پر حکومت نے عدالت عظمیٰ اور دو ہائیکورٹس کے ججز پر مشتمل انکوائری کمیشن بنایا ہے جس پر عدلیہ کے اندر سے عدم اعتماد اور کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ جب خود عدلیہ ہی اپنے ججز پر اعتماد کا تاثر دینے سے قاصر ہے تو پھر اس طرح کے حساس قسم کے معاملات میں ان کو یہ ذمہ داری کیسے دی جا سکتی ہے؟ کیا اس سے معاملات مزید پیچیدہ نہیں ہو جائیں گے؟
آسان سا کام ہے اگر پاکستان کے عوام واقعی نہیں چاہتے کہ چھاؤنیوں پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی ہو تو پھر پارلیمان تو عوام ہی کی نمائندہ ہے، بدل دیجئے اس قانون کو اور ختم کر دیجئے فوجی عدالتوں کو۔ لیکن اس طرح کے احتجاجوں اور تحریکوں کا کوئی جواز نہیں اور کیا جو وکلا یہ کانفرنسز کر رہے ہیں ان کو پاکستان کے تمام وکلا کی تائید حاصل ہے؟
کیا جو لوگ 9 مئی کو وہاں دھاوا بولنے کے لئے گئے اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا اور ہمارے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی اس کا کوئی آئینی و قانونی جواز تھا؟ کیا ان کو سول کورٹس میں مقدمات چلانے یا ان کے ساتھ نرمی برتنے کا عمل مستقبل کو ایسے سانحات سے محفوظ کرنے کا مؤجب بنے گا یا ایسی سوچوں کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کا مؤجب؟ کیا جو ان سانحات میں ملوث لوگ ہیں ان کے اپنے خاندانوں کا تعلق فوج سے نہیں؟ میرا ان سے سوال ہے کہ اگر ان کے اپنے ریٹائرڈ فوجی افسران آج حاضر سروس ہوتے اور ان کے رشتہ داروں کی بجائے کوئی اور شہری اس سانحہ میں ملوث ہوتے تو پھر ان کا کیا فیصلہ ہوتا؟
کیا ماضی میں جو نا انصافیاں ہوئیں وہ ساری فوجی کورٹس نے ہی کی ہیں؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کسی فوجی عدالت نے دی تھی؟ کیا پچھلے کئی ہفتوں سے جو تحریک انصاف پر مقدمات درج ہو رہے ہیں وہ سول حکومتوں کے زیر انتظام اداروں میں نہیں ہوئے؟ کیا وہ سارے مقدمات سول کورٹس میں نہیں چل رہے؟ کیا ان ساری کارروائیوں پر تمام ملزمان خوش ہیں؟ کیا یہ فوجی عدالتیں کسی اور ملک کی ہیں یا ان کو آئین پاکستان کا تحفظ حاصل نہیں؟
شاید کوئی بھی نہ چاہتا ہو کہ سول لوگوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب سویلین ایسے اعمال کے مرتکب ہوں گے تو پھر ان کو کوئی کیسے وہاں سے گھسیٹ کر باہر نکال سکتا ہے جب وہ خود دوڑ دوڑ کر چھاؤنیوں کی طرف بھاگیں؟ جیسے وہ کسی دشمن ملک کی فوج کو فتح کرنے جا رہے ہوں۔ اور اگر سول نظام انصاف فوری، شفاف اور غیر جانبداری کی تاریخ کا اثاثہ رکھتا ہوتا تو پھر ایسے مخصوص قوانین بنائے ہی کیوں جاتے؟ اگر ہمارے عوام کی اخلاقیات اور ظرف اتنے اعلیٰ ہوتے تو وہ اس قانون کو جا کر کیوں للکارتے؟ اس پر کوئی بات نہیں کرتا اور سہولتیں تلاش کرنے کے چکر میں ہر کوئی شیدائی ہوا جا رہا ہے۔
معذرت کے ساتھ مجھے ان لوگوں کی باتوں اور انداز سے ابھرنے والے تاثر سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ فوجی عدالتوں کی شفافیت، غیر جانبداری اور فوری انصاف سے خوفزدہ ہیں جس کے یہ عادی نہیں ہیں۔ اگر ان لوگوں پر 2014 میں پی ٹی وی، پولیس اور پارلیمان پر حملہ کرنے کے جرائم میں سول عدالتوں سے سزا دلوائی گئی ہوتی تو آج ان کے لئے فوجی عدالتوں کے خلاف آواز اٹھانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ خدارا سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آئین و قانون اور نظام انصاف اور دفاع کا مذاق نہ بنائیں اور اپنے مفادات اور خواہشات کے خاطر ملکی امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کوشش نہ کریں۔
میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ آئین و قانون اور اپنی حیثیت کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ قانون کی حکمرانی کو اپنی راہ لینے دیں اور جہاں آپ انسانی حقوق کی خلاف ورزی دیکھتے ہیں اس کی نشاندہی ضرور کریں۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی قانون میں موجود ہے لیکن قانون کو سمجھنے والوں کے مطالبات اور انداز میں بھی آئین و قانون اور انصاف کے اصولوں کی جھلک نظر آنی چاہئیے۔