پیپلز کمیشن برائے حقوق اقلیت اور ادارہ برائے سماجی انصاف نے ' اقلیتوں کے حقوق: تحفظات اور پالیسی اقدامات' کے موضوع پر ایک عوامی اسمبلی کا انعقاد کیا جس میں اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن کے قیام کے مسودہ قانون اور جبری تبدیلی مذہب کے سدباب سے متعلق مسودہ قانون پر تفصیلی بحث کی گئی۔ سابق وزیر اعجاز عالم آگسٹین، سابق ایم پی اے طارق گل اور سابق ایم پی اے شہزاد الہیٰ نے بھی کارروائی میں حصہ لیا۔ اقلیتی سیاست دانوں نے قانون ساز اسمبلی میں اقلیتی حقوق کمیشن کے قیام اور مذہب کی جبری تبدیلی کو جرم قرار دینے کے بل کی مکمل حمایت کرنے کا عہد کیا۔
ورکنگ گروپ کی سربراہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال، پیٹر جیکب، جسٹس (ر) مہتا کیلاش ناتھ کوہلی، سروپ اعجاز ایڈووکیٹ، ڈاکٹر ریاض شیخ، ڈاکٹر اے ایچ نیئر، روبینہ فیروز بھٹی، فاطمہ عاطف، لبنیٰ جرار اور ماریہ اقبال ترانہ نے مسودہ بل کا جائزہ پیش کیا۔
پیپلز کمیشن کے سربراہ پیٹر جیکب نے حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے بل کا خیرمقدم کیا اور تجویز پیش کی کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کمیشن میں خواتین، بچوں اور انسانی حقوق سے متعلق کمیشن کے اراکین کو شامل کیا جانا چاہئیے۔ انہوں نے اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کی جبری تبدیلی مذہب سے متعلق اعداد و شمار پیش کیے اور کہا کہ پاکستان میں سال 2022 میں کم از کم 124 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 81 ہندو، 42 عیسائی اور ایک سکھ شامل تھے۔ سندھ میں 66 فیصد کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ پنجاب میں 40 فیصد اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔
سابق وزیر اعجاز عالم آگسٹین نے افسوس کا اظہار کیا کہ بچپن کی شادیوں اور مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق قوانین کو مذہبی گروہوں اور بیوروکریسی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہے جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مناسب طریقے سے تدارک کیا جائے۔ سابق ایم پی اے شہزاد الہیٰ نے کہا کہ قانون سازوں اور قائمہ کمیٹیوں کو ایسے تمام بلوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ سابق ایم پی اے طارق گل نے کہا کہ سٹیک ہولڈرز کو مشترکہ کوششیں کرنے اور قانون سازوں پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اقلیتوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسی ایکشن متعارف کرائیں۔
ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون ساز اسمبلی کو بل پر غور کرنا چاہئیے اور 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی اور تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ان کے ساتھ بچپن میں جنسی زیادتی جیسے جرم کا خاتمہ ہو اور بچوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔ جسٹس (ر) کیلاش ناتھ کوہلی نے کہا کہ مذہبی گروہ تعلیمی میدانوں اور قانون ساز اسمبلیوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے قانونی طور پر شادی کے قابل عمر 18 سال مقرر کرنے کے لیے کم عمری کی شادی کو روکنا ہو گا اور جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینے کا بل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیح ہونا چاہئیے کیونکہ مذہبی گروہ جبری تبدیلی مذہب کی کارروایوں میں ملوث ہیں اور وہ اپنے جرائم کی سزا پانے سے بچ جاتے ہیں جو کہ ناانصافی ہے۔ ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے انسانی حقوق کے اداروں پر لازم ہے کہ وہ ایسے قوانین اور پالیسیوں کو مضبوط کریں جو مذہبی اقلیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔
پیپلز کمیشن نے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے قومی کمیشن برائے اقلیتی بل 2023 کا خیر مقدم کیا۔ بل کا جائزہ لینے کے بعد پیپلز کمیشن کے ممبران نے بہتری کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں۔
اقلیتی حقوق کے ادارے کے قیام کے بل کو قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کہا جانا چاہئیے۔
اقلیتی کمیشن کو کسی دوسرے ریاستی ادارے کے متوازی مذہبی اقلیت کے بجائے انسانی حقوق کا ادارہ ہونا چاہئیے۔
مذہبی گروہوں کے تنوع کو شامل کرتے ہوئے اس کی تشکیل کو انسانی حقوق کے احترام اور احساس کو ممکن بنانا چاہئیے، اس لیے اسے حکومتی نمائندگی اور اثر و رسوخ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی تقسیم کو کم کرنا چاہئیے یا اقلیتوں کے درمیان پسندیدہ افراد کو فروغ دینے کے امکانات کو منسوخ کرنا چاہئیے۔
اقلیتی حقوق کے ادارے میں تقرری سلیکشن کمیٹی کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہئیے اور اسے صدر پاکستان کے بجائے پارلیمنٹ کو سالانہ رپورٹ پیش کرنی چاہئیے (سیکشن 24 (2))۔