بلوچ سیاسی قیادت کو مصلحت پسندی چھوڑ کر عوام کا ساتھ دینا ہو گا

آج سیاسی پارٹیوں کے غیر مقبول فیصلوں اور عوامی نفسیات کے برعکس سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے سیاسی کارکنان کے پاس بہت ہی محدود آپشن رہ گئے ہیں۔ سیاست دان جب عوامی قوت کے بجائے کسی اور طرف دیکھتے ہوں تو سیاست دانوں اور عوام کے درمیان خلیج ہی پیدا ہو گی۔

بلوچ سیاسی قیادت کو مصلحت پسندی چھوڑ کر عوام کا ساتھ دینا ہو گا

معروف بلوچ دانشور اور محقق میر قادر بخش نظامانی اپنی تصنیف 'بلوچ قومی تحریک' میں لکھتے ہیں کہ 1917 کے عظیم بالشویک انقلاب کے بانی لینن نے انقلاب کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس وقت کے اپنے سفیر کے لیے جو ہدایات ارسال کی تھیں ان میں اسے کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک اور بلوچوں کی برطانوی سامراج کے خلاف قومی آزادی کی جدوجہد کی ہر طرح سے مدد اور تعاون کرنا چاہیے۔ یہ ہدایات اس خط کے ذریعے کی گئی تھیں جو کابل میں روسی سفیر کی تقرری کے بعد 1919 میں لینن نے اُن کو بھیجا تھا۔ اس سے یہ بات واضح اور دوٹوک ہے کہ اس وقت لینن اور اس کی انقلابی تحریک بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد سے نا صرف باخبر تھے بلکہ متاثر بھی تھے اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو ایک ترقی پسند سامراج دشمن تحریک تصوّر کرتے تھے۔

آج کئی صدیاں گُزرنے کے بعد بھی جب ہم بلوچستان کی قومی حقوق کی جدوجہد کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں حالات کی مماثلت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بلوچ سرزمین اپنے محل وقوع اور بے پناہ معدنی وسائل اور سمندری حدود کے اعتبار سے دُنیا کی نظروں کا اُس وقت مرکز تھی اور آج بھی بڑی شدّت کے ساتھ دنیا کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نگاہوں کا مرکز ہے۔ آج وسائل کے اعتبار سے دُنیا کے جدید معاشی فلسفے سیاسی نظریات کا تعین کرتے ہیں۔ سوشلزم کی جڑیں کمزور ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے توانا اور مضبوط شجر کے سایہ میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔ دنیا دو طاقتور نظریات کے بیلنس آف پاور سے نکل کر سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے اژدہے کے زیر اثر آ گئی ہے۔ طاقتور طبقات بڑے مضبوط اور مربوط سیاسی نظام کے ذریعے دُنیا بھر کی محکوم اقوام کے وسائل پر کبھی دہشت گردی اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر کبھی مذہبی جنونیت اور شدّت پسندی کے نام پر اور کبھی علاقائی سالمیت اور اپنی قومی بقا کے نام پر قبضہ کرتی چلی جا رہی ہے۔

دنیا بھر کی کمزور، ناتواں اور محکوم قومیں بالشویک انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ امید لگائے بیٹھی تھیں کہ اب دُنیا میں ایک ایسا انقلابی نظام رائج ہو گا جس سے قوموں کے وسائل اور ان کی زمین پر اُن کا حق تسلیم کیا جائے گا۔ سامراجی قوتیں اپنی قبضہ گیریت کو مزید قائم نہیں رکھ سکیں گی۔ دنیا بھر میں طاقت کے زور پر محکوم قوموں کو غلام بنانے اور ان کے وسائل کو بے دریغ لوٹنے کا یہ قبضہ گیر سرمایہ دارانہ نظام اپنے انجام تک پہنچے گا مگر آہستہ آہستہ دنیا کے ان دو معاشی نظریوں کا فلسفہ آپس میں تمام تر فکری اختلاف کے باوجود ایک سانچے میں ڈھلنے لگے گا۔ سوویت یونین کے معاشی بحران نے ملک کی سالمیت اور وجود کو خطرے میں ڈالا اور آخرکار ایک عظیم انقلابی ریاست جو دُنیا بھر کی محکوم اور مظلوم قوموں کی اُمیدوں کا مرکز تھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائی۔

سرمایہ دارانہ طاقتور نظام کے سامنے سوشلزم بالشویک نظریات کا اس طرح مہندم ہونا بلوچ جیسی سوشلسٹ قوموں کے لیے بذات خود ایک بدترین امتحان اور آزمائش ثابت ہوا۔ بلوچ فکری طور پر نا صرف اُس وقت بلکہ آج بھی سوشلسٹ نظریات کا اس خطے میں سب سے بڑا پیروکار ہے جو فکری اور نظریاتی طور پر سوشلزم اور سوشلسٹ معاشی نظریے کو دنیا بھر کے معاملات کا بنیادی حل سمجھتا ہے۔ بلوچ حق ملکیت کے اشتراکی نظام پر یقین رکھتا ہے۔ مذہبی طور پر مضبوط عقیدے کے باوجود بلوچ مذہب کو انسان کا انفرادی معاملہ قرار دیتا ہے۔ ریاست، سیاست اور معیشت کے معاملات میں مذہب کے عمل دخل کے شدید خلاف ہے۔ بلوچ کا فکری اور نظریاتی اصول ہے کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے۔ ریاست کو کسی مذہب کے تابع بنا کر وہاں قومیتوں کے حقوق کو متاثر کیا جا سکتا ہے لہٰذا ریاستی معاملات میں مذہب کا عمل دخل نا صرف ریاستوں کے اندر مختلف قومیتوں اور دیگر اقلیتی مذاہب کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ خود مذہب کو متنازعہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بلوچ نفسیاتی اعتبار سے ایک آزاد خیال جمہوری قوم ہے جو معاشرتی آزادی اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ پر بھرپور یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اس خطے میں مذہب اسلام کے آنے کے فوراً بعد سے بلوچ رضاکارانہ طور پر مسلمان ہوئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تاریخی طور پر بہت سے اسلامی جنگوں میں شامل رہے جو تاریخی طور پر ایک الگ بحث ہے مگر بنیادی طور پر بلوچ مہرگڑھ کے تہذیبی اعتبار سے پچھلے بارہ ہزار سالوں سے اپنی زمین کا مالک ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف طالع آزماؤں سے اپنے وطن اور اپنی ننگ و ناموس کا دفاع کرتا ہوا آ رہا ہے۔ ایک سرکش اور باوقار قوم ہے جو زمین کو اپنی ماں کا درجہ دیتی ہے اور اِس کی حفاظت میں ہر طالع آزما سے مقابلہ کر کے تاریخ رقم کر چکی ہے مگر افسوس کہ آج بلوچ کو جن سنگیں خطرات اور معاملات کا سامنا ہے وہ تاریخی اعتبار سے کچھ ضرور مختلف نوعیت کے ہیں مگر آج اپنی قومی شناخت اور اپنی مادر وطن کے دفاع اور اپنی ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیے یکجہتی کے ساتھ وہ کردار ادا نہیں کر رہا جس کی توقع کی جا رہی ہے۔

آج بھی بلوچ کو وطنی اور قومی اعتبار سے کئی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاست پاکستان کے آئینی فریم ورک میں جو آئینی حقوق کاغذی طور پر اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے بلوچستان کو دیے گئے ہیں، وہ صرف فائلوں کی حد تک بے مثال اور تاریخی ہیں مگر عملی طور پر بلوچستان آج بھی اپنی قومی بقا کی بدترین صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ بے اختیار پارلیمانی طرز سیاست میں جہاں ایک طرف پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو بے توقیر کر دیا ہے دوسری طرف عام بلوچ کا اعتبار اس پارلیمان اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں پر اُٹھ چکا ہے۔ بلوچ سیاسی جماعتوں نے جمہوری سیاسی جدوجہد کے نام پر بدترین مصلحت پسندی سے کام لیا ہے جس سے نا صرف عوام میں اُن کی مقبولیت انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے اپنے کارکنان بھی تذبذب کے شکار ہیں۔ قوم کے اندر ایک شدید قسم کی اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بے یقینی کی اس صورت حال میں بلوچ نیشنلسٹ قومی جماعتوں کا کردار بھی مایوس کُن ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی اُمنگوں کے مطابق فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے اندر آپس میں چھوٹے چھوٹے معاملات اور قیادت کی آپسی چپلقش نے پارٹیوں کو محدود کر دیا ہے۔ قومی معاملات پر کم سے کم نقاط پر یکجہتی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے پارٹیاں اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد میں نماز ادا کر رہی ہیں جس سے سیاسی کارکنان میں مزید بے چینی بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف بلوچ نوجوان تعلیم یافتہ عورتوں اور بچیوں پر مشتمل ایک نئی سیاسی تحریک جس کی بنیاد جبری طور پر گمشدگی کے شکار وہ نوجوان ہیں جو ملک کے مخلتف تعلیمی اداروں سے اٹھا کر غائب کر دیے گئے ہیں بلوچ یکجہتی کے نام پر یہ تحریک آہستہ آہستہ بلوچ کے تمام سیاسی کارکنوں اور ہر گھر علاقے محلے بازار اور گاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے مصلحت پسندانہ کردار اور ریاست کی طرف سے بار بار الیکشن کے نام پر ہونے والی سلیکشن اور اپنے سہولت کاروں کو عوام پر مسلط کرنے کے ردعمل میں یہ خود رو تحریک ایک مضبوط منظم عوامی تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے۔

شروعاتی دور میں یہ تحریک سرکار کی طرف نوجوانوں کو جبری گمشدگی کے خلاف ون پوائنٹ ایجنڈے تک محدود بنائی گئی تھی۔ تربت میں ایک نوجوان بلوچ دکاندار بالاچ بلوچ کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں المناک شہادت کے بعد اس تحریک نے ایک دھرنے کی شکل میں اپنی بنیادی جدوجہد کا آغاز کیا۔ پھر مسلسل ریاستی ظلم کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اس دھرنے کے منتظمین نے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔ اس تاریخی لانگ مارچ میں بلوچ مسنگ پرسنز کے خاندان سمیت عام بلوچ کی ایک ناقابل یقین تعداد شامل ہوئی۔ پورے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے لوگوں نے جس جوش و ولولے کے ساتھ اس مارچ کا استقبال کیا اور ساتھ دیتے رہے، پہلے کبھی اس قسم کی بلوچ یکجہتی تحریک حالیہ تاریخ میں نہیں دیکھی گئی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ عورتوں نے اس مارچ کو ایک منظم تحریک کی شکل میں بدل دیا۔

اسلام آباد پہنچنے کے بعد ریاست نے جس بربریت سے بلوچ خواتین اور بچیوں کا استقبال کیا وہ تاریخ ہر بلوچ کے ذہن پر نقش ہوا۔ ریاستی بربریت کے خلاف بلوچ ملک بھر میں اس مارچ کے حق میں منظم ہونے لگے۔ کیا کراچی، کیا کوئٹہ، کیا ڈیرہ جات، کیا شہر، کیا گاؤں، ہر گھر سے بلوچ خواتین مرد بچے بچیاں سڑکوں پر نکل آئے۔ یوں یہ لانگ مارچ ایک مکمل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اسلام آباد واپسی پر جس طرح اس مارچ کا تاریخی استقبال کوئٹہ میں کیا گیا وہ بلوچ یکجہتی کی ایک انمول مثال ہے۔ بے سَروسامانی میں ہزاروں لوگوں نے تاریخ رقم کر دی۔ بلوچ سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف رہیں جبکہ دوسری طرف ایک لاوا تیار ہو رہا تھا۔ الیکشن کے نام پر کی گئی ریاستی سلیکشن نے باقی رہ گئی کسر بھی پوری کر دی۔ جس خود رو تحریک کے رہنماؤں نے الیکشن کے متعلق جس طرح کہا جس قسم کے خدشات کا اظہار کیا اُس سے بدتر کی گئی معاشرے کے بدترین لوگوں کو الیکشن کے نام زبردستی عوام پر مسلط کیا گیا۔ قوم پرست پارٹیوں کے گڑھ میں ایسے ایسے انجان لوگوں کو ایم پی اے اور ایم این اے بنوایا گیا ہے جنہیں عوام جانتی تک نہیں۔

اب یہ لاوا جو پہلے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا اُس میں ان ہی قوم پرست پارٹیوں کے کارکنان کے لیے بھی جانا آسان بنا دیا۔ سیاسی کارکن ریاست کے اس بدترین دھاندلی زدہ الیکشن سے نا صرف اپنا اعتماد اور یقین کھو چکے ہیں بلکہ خود اس خود رو تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ ریاست کی بدترین پالیسی اور بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی کمزوری اور مصلحت پسندی نے اس تحریک کو دوام بخشا اور آج اس تحریک کی جڑیں عوام میں پیوست ہوچکی ہیں۔ ریاست نے جو بیج بوئے تھے آج وہ نفرت کا درخت تیار ہو کر جڑیں پکڑ چکا ہے۔

آج سیاسی پارٹیوں کے غیر مقبول فیصلوں اور عوامی نفسیات کے برعکس سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے سیاسی کارکنان کے پاس بہت ہی محدود آپشن رہ گئے ہیں۔ سیاست دان جب عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنی عوامی قوت کے بجائے کسی دو نمبر طاقت کی طرف دیکھتے ہوں تو سیاست دان اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہوتی ہے۔ آج بلوچستان میں دیکھا جا رہا ہے مگر اب بھی آخری موقع ہے کہ قوم پرست قیادت آگے بڑھے، بلوچ کی قیادت کرے، یکجہتی اور اتفاق پیدا کرے، مصلحت پسندی کی سیاست کو فی الحال ایک سائیڈ پر رکھ کر عوامی مزاج کے مطابق فیصلہ کرے، عوام کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ورنہ یہ بے رحم تاریخ کبھی بھی کسی کو کوڑا دان میں پھینک سکتی ہے۔