مکران ڈویژن میں قوم پرست جماعتیں پھر مضبوط ہو رہی ہیں؟

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ لالہ رشید، میر انور مزار اور میر حمل بلوچ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے مکران میں نیشنل پارٹی مضبوط پوزیشن میں آ گئی ہے اور مکران کی زیادہ تر نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ نیشنل پارٹی کے مطابق کیچ کی صوبائی اسمبلی اور مکران کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر نیشنل پارٹی مخالفین کو ہرائے گی۔

مکران ڈویژن میں قوم پرست جماعتیں پھر مضبوط ہو رہی ہیں؟

مکران تین اضلاع پر مشتمل بلوچستان کا ایک لبرل علاقہ ہے اور ماضی میں یہ علاقہ قوم پرستوں کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔

1970 میں بلوچستان کو صوبائی حیثیت کا درجہ ملنے کے بعد مکران کی صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے تھے۔ تین اضلاع کیچ، پنجگور اور گوادر پر مشتمل مکران ڈویژن جہاں ایک طرف اس وقت مزاحمتی سیاست عروج پر ہے تو دوسری طرف قوم پرست ایک مضبوط وجود رکھتے ہیں۔

1970 سے لے کر 1997 تک یہ علاقہ قوم پرستوں کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ مشرف دور میں مکران کی قوم پرست سیاست کو نقصان پہنچایا گیا۔

مکران میں صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی نشستیں

حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد مکران کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 6 سے بڑھ کر 7 ہو گئی ہے جبکہ قومی اسمبلی کی 2 نشستیں مکران کے حصے میں آئی ہیں۔ کیچ میں صوبائی اسمبلی کی 4، پنجگور میں 2 جبکہ گوادر میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہے۔ گوادر کم کیچ اور پنجگور کم کیچ قومی اسمبلی کے حلقے ہیں۔

2018 کے الیکشن میں پارٹی پوزیشن

2018 کے الیکشن میں گوادر کم لسبیلہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار اور نیشنل پارٹی کے حمایتی محمد اسلم بھوتانی جبکہ کیچ کی نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کی زبیدہ جلال منتخب ہوئی تھیں۔ یاد رہے زبیدہ جلال مکران کی واحد خاتون ہیں جو دو مرتبہ جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو چکی ہیں اور ایک مرتبہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کے میر ظہور بلیدی، میر اکبر آسکانی اور میر عبدالرؤف رند جبکہ سید احسان شاہ بی این پی عوامی کے ٹکٹ پر کیچ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ میر عبدالرؤف رند دہری شہریت کیس پر جب نااہل ہو گئے تو ضمنی الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر لالہ رشید ان کی نشست پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ جبکہ پنجگور سے بی این پی عوامی کے میر اسد اللہ بلوچ اور گوادر سے بی این پی مینگل کے میر حمل کلمتی منتخب ہو گئے۔

2024 کے متوقع الیکشن سے پہلے کی سیاسی صورت حال

2018 کے الیکشن سے پہلے بنائی گئی باپ پارٹی ٹوٹ چکی ہے اور باپ کے زیادہ تر سابق ارکان صوبائی اسمبلی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو پیارے ہو چکے ہیں اور باپ کے ورکر بھی اس وقت اپنے لئے محفوظ ٹھکانے تلاش کر رہے ہیں۔ باپ دور کے دونوں وزرائے اعلیٰ جام کمال خان مسلم لیگ ن جبکہ میر عبدالقدوس بزنجو پیپلز پارٹی جوائن کر چکے ہیں اور کئی الیکٹ ایبلز بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

مکران کی موجودہ صورت حال

گوادر سے ابھرنے والی 'حق دو تحریک' اس وقت گوادر میں ایک مضبوط پوزیشن رکھتی ہے اور مکران کے مختلف حلقوں میں حق دو تحریک کا ووٹ بینک موجود ہے۔ عوامی ایشو پر بننے والی یہ تحریک اب ایک سیاسی پارٹی بن چکی ہے اور گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر سب سے آگے ہے جبکہ حق دو کی مقبولیت کیچ اور پنجگور میں بھی کافی حد تک ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ حق دو تحریک اور نیشنل پارٹی میں قربت موجود ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے الیکشن میں مکران میں دونوں پارٹیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔

بی این پی مینگل کے دیرینہ ساتھی، معروف بلوچ دانشور اور سابق بیوروکریٹ جان محمد دشتی کچھ عرصہ پہلے بی این پی سے راہیں جدا کرنے کے بعد بلوچستان نیشنل الائنس نامی ایک پارٹی بنا چکے ہیں۔ جبکہ بی این پی عوامی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی سید احسان شاہ جو کیچ سے چار مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں، اس وقت ضلع کیچ میں بی این پی مینگل کی کمان سنبھال چکے ہیں جبکہ بی این پی عوامی اب صرف پنجگور کی واحد نشست پر الیکشن میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جہاں بی این پی عوامی کے مرکزی صدر میر اسد اللہ بلوچ الیکشن لڑیں گے۔ جبکہ میر اسرار زہری اور میر اسد اللہ بلوچ کے مابین پارٹی کے حوالے سے کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چل رہا ہے۔

کیچ سے بی این پی مینگل کے دو سابق امیدوار میر انور مزار اور میر حمل بلوچ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت کے بعد اب بلیدہ اور تمپ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نیشنل پارٹی مضبوط پوزیشن میں آ گئی ہے جبکہ دشت سے سابق رکن اسمبلی لالہ رشید بھی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تینوں شخصیات کی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے مکران میں نیشنل پارٹی ایک مضبوط پوزیشن میں آ گئی ہے اور مکران کی زیادہ تر نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔

لالہ رشید، میر انور مزار اور میر حمل بلوچ کی شمولیت کو نیشنل پارٹی کے رہنما ایک بڑی سیاسی کامیابی کہتے ہیں اور ان کے مطابق کیچ کی صوبائی اسمبلی اور مکران کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر نیشنل پارٹی مخالفین کو ہرائے گی۔

دوسری جانب مکران کی سطح پر بی این پی مینگل اور پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد کی چہ مگوئیاں جاری ہیں اور ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل مکران کی سطح پر انتخابی اتحاد کریں گی اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر سمجھوتہ کریں گی۔