پاکستان کے جوہری سائنسدان اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تشکیل دینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں سے متعلق پاکستان کی سپریم کورٹ کو تحریر کردہ خط میں کہا ہے کہ انکی شخصی آزادی ریاستی اداروں کی جانب سے سلب کی جارہی ہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بدھ کے روز جب اُنھیں عدالت لایا گیا تو سکیورٹی اہلکار پہلے تو دو گھنٹے اُنہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر گھماتے رہے اور پھر اُنھیں عدالت میں پیش کرنے کی بجائے رجسٹرار آفس میں بٹھایا گیا جو کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
بی بی سی کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے خط میں مزید کہا کہ ان پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں قید میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اس خط میں لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
عدالت عظٰمی کو منگل کے روز بتایاگیا تھا کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو انکے وکیل سے اکیلے میں ملنے نہیں دیا جارہا۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے سیکیورٹی اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ جس کے بعد ایٹمی سائنسدان کی نقل و حرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کے وکلا کی ملاقات کے دوران سکیورٹی اداروں اور اٹارنی جنرل آفس کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو غیرقانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے اعترافِ جرم کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کیا گیا تھا۔