پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں رٹ آف دی سٹیٹ کے نام پر وہ لوگ بھی کارروائی کر ڈالتے ہیں جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں اپنی الگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے اس ملک کی کہ 1947 سے جن دو اداروں نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، آئین و قانون میں جبراً انہی اداروں کا تقدس اور احترام کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
میں کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا بلکہ اس حوالے سے بے شمار تاریخی حقائق موجود ہیں۔ ملک میں 35 سال براہ راست حکمرانی کرنے والی ڈکٹیٹرشپ نے پاکستان کو ایسی بیرونی جنگوں میں پھنسایا کہ ان کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں سابق جرنیل اپنی کتابوں میں بھی مان چکے ہیں۔ دوسری جانب سب سے بڑا دکھ جو ملک کو دولخت کر کے دیا گیا اس حوالے سے بھی صدیق سالک اپنی کتاب 'میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا' میں واضح تصویر کشی کرتے ہیں۔ کارگل کے حوالے سے جنرل مشرف کی غلط اور مفاد پرستی پر مبنی پالیسیوں کا تذکرہ جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب 'یہ خاموشی کہاں تک؟' میں کر چکے ہیں۔ مالی معاملات پر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ اپنی کتاب 'ان سائیڈ پاکستان ملٹری اکانومی' میں بہت سے قصے واضح کر چکی ہیں اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی آخری تقریر میں بہت سے معاملات میں فوج کے غیر آئینی کردار کو تسلیم کر چکے ہیں۔
پھر آتا ہے وہ ادارہ جو خود اپنی عزت کرواتا ہے اور اگر اسے وہ پسند نہ آئے تو توہین کا مقدمہ نہ صرف درج ہوتا ہے بلکہ گرفتاری بھی ہوتی ہے اور وہی ادارہ اس مقدمے میں منصف کا کردار ادا کر کے معافی مانگنے کی ہدایات بھی جاری کرتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس سے پیدا ہونے والا نظریہ ضرورت ہو یا ہر فوجی آمر کو عدلیہ کی جانب سے آئینی جواز فراہم کرنے کے معاملات ہوں، ملک کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جعلی مقدمے میں پھانسی لگانے کا معاملہ ہو یا پھر سوموٹو کے نام پر حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا معاملہ ہو، ملک میں وزرائے اعظموں کو اپنی توہین کے معاملات سے لے کر ٹیکنکل وجوہات کی بنیاد پر نا اہل کیے جانے کا قصہ ہو یا پھر موجودہ صورت حال میں ایسی ایسی آئین اور قانون کی تشریح کر کے فیصلے سنانا ہو جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ ہو بلکہ قانون کے ماہرین بھی حیران ہو جائیں تو یہ سبھی واقعات عدلیہ کے متنازعہ کردار کی جامع تصویر کشی کرتے ہیں۔
جسٹس افتخار چودھری کے کردار کے بعد عدلیہ کے دامن پر جو دھبہ ثاقب نثار نے لگایا وہ تاریخ کے سیاہ باب کا سب سے المناک صفحہ ہے مگر موجودہ صورت حال میں عدلیہ جس طرح تقسیم ہوتے ہوئے قانون کی من پسند تشریحات کر رہی ہے اس پر مجھے 2016 کا وہ وقت یاد آ گیا جب میں نے کورٹ رپورٹنگ شروع ہی کی تھی اور وکلا کے چیمبرز میں جانا ہوتا تھا۔ ایک روز ایک سینیئر وکیل سے بات ہوئی اور سوال پوچھا کہ قانون کیا ہے؟ کیونکہ ایک ہی کیس میں مختلف اشخاص کیلئے مختلف فیصلے دیکھنے کو ملتے ہیں، تو وکیل صاحب فرمانے لگے کہ یہاں قانون موم کی ناک کی مانند ہے جسے جب چاہے جیسے چاہے جہاں چاہے اپنے فائدے کے مطابق موڑ لو۔ موجودہ سپریم کورٹ کے رویے اور چیف جسٹس صاحب کے فیصلوں کے بعد نہ جانے کیوں میرے دماغ میں یہی جملہ بار بار چل رہا ہے۔ اس مؤقف کو مزید تقویت اس طرح ملی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہی سابق جسٹس صدیقی صاحب کا موجودہ کیس پر مؤقف سنا۔
صحافی طلعت حسین کے پروگرام میں انہوں نے قانونی دلائل سے موجودہ چیف جسٹس کے عمران خان کے فین مومنٹس پر مبنی ریمارکس 'آپ سے مل کر خوشی ہوئی' جیسے معاملات پر تجزیہ کیا ہے اور کمرہ عدالت و احاطہ عدالت کے مابین فرق کو سمجھایا ہے وہ قابل رشک ہے اور سپریم کورٹ کیلئے شرم کا مقام ہے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں اگر یوں ہے تو ریاست کو ہزاروں قیدیوں کو جو جیلوں میں ہیں، رہا کر ان سے معافی مانگنی چاہئیے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں ایک ایسا کیس جس میں سماعت کے بعد ٹرائل تک شروع کر دیا گیا ہو عدالت کی جانب سے ایسی صورت حال میں تو ضمانت بھی نہیں ہو سکتی اور سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کی بات کر رہی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ جہالت زدہ افراد اس بات کا طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ لوگ ہمارا ساتھ دیں جو ریاستی اداروں کی تضحیک میں خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ گردانتے ہیں جبکہ ان لاشعور افراد کو یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا مطلب اداروں کی تضحیک اور توہین نہیں بلکہ سویلین بالادستی کا مطالبہ ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور تعمیری تنقید اداروں پر اس حوالے سے مؤثر ہے کہ ان کو یہ باور کروایا جائے کہ آپ اپنے آئینی دائرے تک محدود رہیں اور ملک میں جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ عدالتوں، ریاستی اداروں اور جی ایچ کیو پر حملہ کریں یا کسی فوجی افسر کی توہین اور تضحیک کریں۔ آپ ریاستی املاک کو نقصان پہنچا کر کہیں کہ ہم اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں! افسوس آپ کی عقل پر ماتم ہے کیونکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا فوج سے نفرت یا اداروں سے نفرت کا نام نہیں بلکہ تعمیری تنقید اور آئینی رول تک محدود رہنے کا مطالبہ ہے اور جس غلیظ روش پر اس وقت عمرانی ایجنڈے پر کارفرما لوگ چل رہے ہیں وہ ملک دشمنی اور غداری کے سوا کچھ نہیں۔ آئین ہمیں اداروں کا تقدس سکھاتا ہے اور آئین کی بالادستی ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ افراد کا مطالبہ رہا ہے۔
لہٰذا اپنے غلیظ پروپیگنڈا کو جمہوریت اور آئین پسند افراد سے مت جوڑیں کیونکہ آپ سویلین بالادست کے حامی نہیں بلکہ ایک فرد واحد کی سپرمیسی کے حامی ہیں جو کہ فاشسٹ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ اس میں آپ فرد واحد کو ملک کے تمام اداروں اور نظام سے بالاتر سمجھتے ہیں جو کہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔
ٹیگز: اختیارات کی تقسیم, ازخود نوٹس, اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ, پاکستانی اسٹیبلشمنٹ, پاکستانی عدلیہ, پروپیگنڈا, جسٹس افتخار چودھری, جسٹس ثاقب نثار, جی ایچ کیو پر حملہ, چیف جسٹس عمر عطاء بندیال, ذوالفقار علی بھٹو, ڈکٹیٹرشپ, ریاستی ادارے, عمران خان, فوجی اسٹیبلشمنٹ, کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ, مولوی تمیز الدین کیس, نظریہ ضرورت
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@