ڈیرہ غازی خان سے سابق صدر پاکستان فاروق لغاری کے بیٹے سابق وفاقی وزیر اویس احمد لغاری کو شکست دینے والی نوجوان زرتاج گل وزیر جو کہ آج کل وفاقی وزیر بھی ہیں، کچھ دن پہلے تمن لغاری کے ایک گاؤں رونگھن کا دورہ کیا۔ اس دورے میں زرتاج گل وزیر کو مقامی صحافیوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس تنقید کا اگر بغور جائزہ لیں تو جن واقعات کی بنا پر وفاقی وزیر کو تنقید کا نشانہ بنا جا رہا ہے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک مقامی صحافی جو کہ ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ ہیں نے خبر دی کہ زرتاج گل وزیر دورہ رونگھن میں BMP چیک پوسٹ پر گئیں اور وہاں جا کر بلوچستان سے سمگل شدہ گاڑیوں کو چیک پوسٹ سے چھڑا کر لے آئیں۔ مقامی صحافی کے بقول جب زرتاج گل چیک پوسٹ پہنچیں تو انہوں نے وہاں پر موجود BMP کے اہلکاروں کو دھمکیاں دیں اور خود SHO کو کرسی سے اُٹھا کر خود وہاں بیٹھ گئیں۔
اس دورے میں چند واقعات کو حقیقت کے برعکس بیان کیا گیا۔ پہلی بات تویہ ہے کہ وفاقی وزیر صاحبہ خود چیک پوسٹ نہیں گئیں تھیں ان کو وہاں کے اہلکاروں نے خود بلایا تھا کیونکہ ان اہلکاروں کے کچھ مسائل تھے جو کہ بہت عرصہ سے حل طلب تھے۔ جب وفاقی وزیر صاحبہ وہاں پہنچیں تو BMP چیک پوسٹ کے عملہ نے خود اُٹھ کر زرتاج گل کو کرسی پیش کی کیونکہ وہاں پر اور کوئی کرسی موجود نہیں تھی، اس لئے SHO نے اپنی کرسی خالی کر دی۔ چیک پو سٹ پر کرسیوں کی کمی کی بھی خود SHO شکایت کر چکے تھے۔
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وفاقی وزیر صاحبہ نے چیک پوسٹ پر جا کر بلوچستان سے آنے والی سمگل شدہ گاڑیوں کو چھڑا کر ڈی جی خان لے کر آئیں۔ اس بات کی تصدیق کے لئے کچھ مقامی لوگوں سے بات کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی صحافی نے جن گاڑیوں کی تصویریں دی ہیں وہ گاڑیاں تو تقریباً دو سال پہلے چیک پو سٹ پر پکڑی گئی تھیں اور پھر ان گاڑیوں کو لاہور راوانہ کر دیا گیا تھا۔ جب وہاں پر موجود ایک BMP اہلکار سے اس حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی گاڑی پکڑی گئی ہے جس کو چھوڑنے کے لئے کوئی دباؤ آیا ہو۔ اس بات کی تصدیق رسالدار خرم کھوسہ بھی کر چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر مقامی صحافی ابھی تک اپنی خبر پر کیوں قائم ہے اور ابھی تک نجی نیوز چینل اس صحافی کی خبر کو اپنی ٹاپ سٹوری کیوں بنائے ہوئے ہے؟
یہ وہی مقامی صحافی ہے جس نے الیکشن سے چند دن پہلے ایک سکول کی خبر نشر کرائی تھی کہ وہاں کوئی عمارت نہیں ہے اور طالب علم ایک کچے سے کمرے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں مگر جب وہاں جا کر دیکھا گیا تو حقیقت کچھ اور تھی اس مقامی صحافی نے وہاں پر موجود مقامی محمد رمضان کے ساتھ مل کر سکول کے گیٹ سے بینرز اتار کر ایک ویران جگہ پر لگا دیا اور اُس کی تصویر بنا کر میڈیا پر نشر کر دی۔ اس مقامی صحافی نے سکول کے ہیڈ ماسٹر سے 5000 روپے طلب کیے مگر ہیڈ ماسٹر نے انکار کر دیا۔ میڈیا نے بھی کاپی کر کے بغیر تصدیق کے چلا دیا۔ حالانکہ وہاں پر سکول کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ چار کمرے اور واش رومز بھی موجود ہیں۔ زرتاج گل وزیر کے دورہ رونگھن کے متنازع ہونی کے وجہ صرف ذاتی اور سیاسی رنجش معلوم ہوتی ہے۔ اس بارے میں خود وزیر صاحبہ اپنا مؤقف بیان کر چکی ہیں مگر مقامی صحافی اور نیوز چینل اس بارے میں مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے۔
نیا دور نے خبر کی آزادانہ طور پر تحقیق نہیں کی۔ یہ لکھاری کی ذاتی تحقیق ہے۔
مصنف کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کر چکے ہیں۔ زیادہ تر سماجی معاملات اور قومی و بین الاقوامی سیاست پر قلم اٹھاتے ہیں۔