جرنل آف پیس مینیجمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے جولائی 2014 کے شمارے میں ایک تحقیقی مقالہ شامل ہوا تھا جس میں پاکستان کا تشخص بطور "صوفی برانڈ" کے ملک کے طور پر کروانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس مضمون کے لکھاری سلمان یوسف (پاکستانی) اور لی ہیوابین (چائنیز) تھے اور دونوں چین کی ڈونگ بی یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دونوں لکھاریوں نے پاکستان کی "ساکھ کے مسئلے" کو ایک برانڈنگ کے طریقہ کار (ریاست اور حکومت کی مدد سے) سے بہتر بنانے کی تجویز پیش کی۔ اس مشق کا مقصد علاقے کی تاریخی اور ثقافتی اقدار کا تعلق طریقت کے ساتھ جوڑنا تھا۔ اس مضمون کے لکھاریوں کو امید تھی کہ ایسا کرنے سے پاکستان کی ساکھ جو 1980 کے بعد شدت پسندی میں اضافے (بالخصوص پچھلی دہائی میں شدت پسندانہ رجحانات میں اضافے) کے باعث متاثر ہوئی تھی بہتر بنائی جا سکتی تھی۔ اور ایسا کرنے کیلئے کسی سیکولر بیانئے کی تشکیل کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ سیکولر بیانئے کو ان سماجی و سیاسی طبقات سے شدید تنقید کا سامنا کرتا پڑتا ہے جو 1974 سے 80 کی دہائی کےآخر تک متنازعہ قوانین اور ان میں ترامیم کی بدولت سماج میں مستحکم پوزیشن حاصل کر چکے تھے۔
یہ مضمون مذہبی شدت پسندی اور سیکیولر انتہا پسندی کے بیچ ایک درمیانی راستہ تلاش کر رہا تھا اور اس نے اسلام کی موجودہ اور جدید شاخ طریقت کو درمیانہ راستہ قرار دیا۔ یوسف اور ہوابین کی تجاویز اس حقیقت کی روشنی میں مرتب کی گئی تھیں جس کے مطابق جنوبی ایشیا میں پائے جانے والے اسلام کا طریقت کے ساتھ تاریخی تعلق موجود تھا۔
یہ مضمون نیک نیتی پر مبنی تھا۔ لیکن اس کے باوجود مضمون جو کہ مشکل اور پیچیدہ مذہبی مسائل مثلاً شدت پسندی کے تدارک کیلئے ایک حقیقت پسندانہ تجویز دینے کا دعویٰ کر رہا تھا دراصل حقیقت کا اعادہ نہیں کر پایا تھا۔ یہ مقالہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ پاکستان میں ریاست اور مختلف حکومتوں نے پہلے ہی اس تجویز پر عمل پیرا ہونے کی متعدد کوششیں کی تھیں جو کہ اس مضمون کے ذریعے دی گئی تھیں۔ اور یہ مقالہ اس بات کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ اس طرح کے تجربات کے ناکام ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں طریقت کے طریقہ کار کو لے کر پہلے سے ہی بیحد اختلافات موجود تھے۔
جو طریقت کا نظریہ اس مضمون نے تجویز کیا تھا وہ ریاست کے بیان کردہ بیانئے اور ملک کے موجودہ پوپ کلچر کی آمیزش پر مبنی تھا۔ طریقت کا یہ مکسچر اس کو پرامن، غیرسیاسی اور گہرائی پر مبنی مذہبی خیالات کی ایک شاخ قرار دیتا ہے جو شدت پسندی اور تعصب کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور خدا کے ساتھ موسیقی اور شاعری کے ذریعے رشتہ استوار کرتی ہے۔ لیکن یہ تشریح پاکستان میں عمومی طور پر تسلیم نہیں کی جاتی۔
یہاں ہمیشہ سے ایسے افراد موجود ہیں جن کے نزدیک تصوف بنیاد پرست سیاست یا اعمال کی نفی نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسی قوت ہے جو مسلمانوں کے فرقوں اور ان کے ذیلی فرقوں جو طریقت کے مخالف ہیں، اور سیکولرز اور جعلی مسلمانوں کے خلاف میدان عمل میں نبرد آزما ہے
اس ضمن میں تازہ ترین مثال تحریک لبیک پاکستان کی ہے۔ تحریک لبیک نے نوجوانوں کو اپنی بنیاد پرست سیاست سے جس طرح کنفیوژن کا شکار کیا ہے وہ ایک قابل فکر نکتہ ہے۔ حالانکہ اس سے متاثر ہونے والے نوجوان فطری طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ مثال کے طور پر تحریک لبیک پاکستان میں اور تحریک طالبان پاکستان میں فرق ہے۔ اس بات کے علاوہ کہ تحریک طالبان پاکستان کے برعکس تحریک لبیک پاکستان مذہبی بغاوت کی تحریک نہیں ہے، ان مڈل کلاس پاکستانیوں جو ریاست اور پوپ کلچر کے طریقت کے بیان کردہ عقائد پر پروان چڑھے ہیں، کے ذہنوں میں اس وقت کنفیوژن پیدا ہوتی ہے جب وہ خادم حسین رضوی جیسے افراد کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ہم پرانے صوفیا اور بزرگوں کے پیروکار ہیں۔
اس طرح کے اولیا اور صوفیا کے پیروکاروں کو ریاست اور پوپ کلچر کے تشریح کردہ طریقت کے عقیدے کے مطابق امن محبت اور برداشت کا پرچار کرنا چاہیے اور اس کے اظہار کیلئے انہیں کسی مزار پر قوالی گاتے یا کوک سٹوڈیو میں کوئی صوفی کلام گاتے دکھائی دینا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس وہ ایک ایسا شخص دیکھ رہے ہیں جو ریاست، موجودہ وزیراعظم اور عدلیہ کے خلاف توہین مذہب کے فتوے دے رہا ہے اور یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ایک پسی ہوئی محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی مسیحی خاتون کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور اس عورت کو بری کرنے والے منصفوں کو بھی پھانسی دی جائے۔
وہ افراد یا گروہ جو خادم رضوی کو "جعلی صوفی" کہتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خادم رضوی بھی انہیں اسی الزام سے نوازتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد اس بات کا کھوج لگانا نہیں ہے کہ طریقت کے ان دونوں طریقہ کاروں میں سے کون سا طریقہ ٹھیک ہے۔ لیکن تحریک لبیک کے اچانک سیاسی عروج کے پس منظر اور اس کے نتیجے میں تشدد کے واقعات جو کہ اس جماعت کی طرز سیاست کی وجہ سے ہیں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں طریقت کیوں ایک سخت مقابلے اور کشمکش کا شکار ہے۔
یہ سمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ یہ دہائیوں پرانا مقابلہ کیونکر اب اس وقت مرکزی سیاسی دھارے میں ابھر کر سامنے آیا ہے، جو بےتحاشہ پاکستانیوں کو کنفیوژ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران مذہبی شدت پسندی پر لکھے گئے زیادہ تر تجزیات میں مسلمانوں کے دیو بندی اور وہابی فرقوں میں عسکریت پسندی کے فروغ پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ گو یہ دونوں پاکستان میں مسلمانوں کے اقلیتی فرقے ہیں لیکن ان فرقوں کو پاکستان میں 80 کی دہائی اور بالخصوص افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف بغاوت شروع ہونے پر سٹریٹیجک اثاثے گردانا گیا۔ پاکستان میں بسنے والا سنیوں پر مشتمل بریلوی فرقہ جو کہ آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہے وہ مسلح جہاد کی تاریخ نہیں رکھتا تھا۔ اس لئے ریاست پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے لاکھوں ڈالرز خرچ کر کے دیوبندی مکتبہ فکر کے ذیلی فرقوں سے سے شدت پسند نکالے اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کر لیا۔
19ویں اور 20ویں صدی کی ابتدا ہی سے دیو بندیوں اور وہابیوں کی بغاوت کے زمانوں میں مسلح جہاد کرنے کی ایک تاریخ ہے جبکہ بریلویوں کی ایسی کوئی تاریخ نہیں۔ بریلوی 19ویں صدی کے آخر میں سنی مسلک کا ذیلی فرقہ بن کر ابھرے۔ ان کا نمودار ہونا دراصل دیوبندیوں کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی کثیر آبادی کی روایتی اقدار پر مذہبی تنقید اور حوصلہ شکنی کا نتیجہ تھا۔ ان مسلمانوں نے انڈیا پر مسلمانوں کے 500 برس پر محیط طویل عرصہ اقتدار کے دوران طریقت کے بہت سے حصوں کو مذہبی رسومات کا حصہ بنا لیا تھا۔
بریلوی کبھی بھی متحد نہیں رہے۔ مثال کے طور پر جب 1919 میں دیوبندیوں نے اپنے آپ کو متحد کرتے ہوئے انڈیا میں ایک مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے ہند تشکیل دی تو بریلویوں کے بڑوں (پیروں) نے اس کے برعکس غیر مذہبی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ البتہ کچھ بریلوی مولوی اور پیروں نے 1925 میں آل انڈیا سنی کانفرنس تنظیم قائم کر لی لیکن یہ سیاسی طور پر جمعیت علمائے ہند جیسی کلیدی اہمیت نہ حاصل کر سکی۔ مثال کے طور پر اثر و رسوخ رکھنے والے بریلوی پیروں کی اکثریت نے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی، اور پھر 1945 سے 1946 کے دوران جناح کی آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
البتہ پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد بریلوی مولویوں کے ایک گروہ نے جمعیت علمائے پاکستان کے نام سے ایک جماعت تشکیل دے لی لیکن ڈاکٹر مجیب احمد نے اپنے ایک مضمون "سٹیٹ اینڈ نیشن بلڈنگ ان پاکستان" میں تحریر کیا ہے کہ جمعیت علمائے پاکستان، پاکستان کے سیاسی محاذ پر 1970 سے قبل شاید ہی کبھی فعال رہی ہو۔ الیکس فلیپون (Alix Phillipon) نے بالکل ایسے ہی مشابہہ مضمون میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ بریلویوں کی اکثریت اگرچہ سیاسی طور پر بکھری ہوئی تھی، پر پاکستان میں موجود سماج پر ان کے گہرے اثرات موجود تھے۔
اپنی کتاب (Arguing sainthood) میں پروفیسر کیتھرین پریٹ ایونگ (Katherine Pratt Ewing) تفضیل سے بیان کرتی ہیں کہ کیسے ریاست پاکستان (اور مختلف حکومتوں) نے بریلویوں کے مذہبی امیج جو کہ ان کے عقیدے سے متعلق تھا اس کو بارہا توڑ مروڑ کر ہر عہد کے پاکستانی قوم پرست بیانئے کے مطابق پیش کیا۔ چونکہ بریلویوں کے عقیدے میں مرنے والے یا زندہ پیروں کی عزت و تکریم بنیادی نکتہ ہے اس لئے ریاست نے صوفیا کی تاریخ پر مبنی تحاریر پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔
ایونگ نے ثابت کیا ہے کہ کیسے ڈاکٹر جاوید اقبال کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایوب خان حکومت (1958-1969) نے پیروں اور مولویوں پر اثرو رسوخ قائم کیا اور ملک میں موجود مزاروں، مساجد اور مدرسوں کو ریاست کی زیر نگرانی کر دیا۔ اس کام کیلئے محکمہ اوقاف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مختلف مشہور صوفیا اور اولیا کی تاریخ محکمہ اوقاف نے ایوب حکومت کے بیانئے کے مطابق لکھی۔
ایونگ اور فیلیپون دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایوب خان کے دور حکومت کے دوران محکمہ اوقاف نے جو مواد شائع کیا اس میں صوفیا اور اولیا کو روایتی مولویوں کی مانند ایک کٹر مذہبی شخصیت کے برعکس معتدل مزاج دکھایا اور بتایا گیا۔ صوفیا اور اولیا کے خاکوں کو ایوب خان کے ترقی پسند اسلام کے تصور کی روشنی میں پیش کیا گیا۔
ان بزرگوں کی تاریخ کو بھٹو کے سوشلسٹ دور میں ایک بار پھر سے نئے سرے سے ترتیب گیا۔ ایونگ نے بھٹو دور میں محکمہ اوقاف کی جانب سے شائع کردہ مواد کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھا کہ اس دور میں صوفیا اور اولیا کو ظالم بادشاہوں، وڈیروں اور ان کے کارندوں کے خلاف مزاحمت کا استعارا بنا کر پیش کیا گیا۔
فیلیپون کا ماننا ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ صوفیا کی تاریخ کو بھٹو کے "اسلامی سوشلزم" کے نظریے سے ملتا جلتا ظاہر کیا جا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ 70 کی دہائی میں جمعیت علمائے پاکستان نے سیاسی میدان میں فعال کردار انجام دیا۔ اس کے رہنماؤں نے بھٹو اور ایوب خان کے طریقت کے بارے میں رائج کردہ نظریات کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر احمد لکھتے ہیں کہ جمعیت علمائے پاکستان کی نظر میں صوفیا "خالص مسلمان" تھے۔
اپنی کتاب (Power failure) میں سیدہ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ جمیعت علمائے پاکستان نے 1970 کے انتخابات کے دوران جھنگ میں شیعہ مخالف کارڈ کھیلا تھا۔ جمعیت علمائے پاکستان کا شمار ان تین مرکزی مذہبی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے 1974 میں احمدیوں کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بریلوی اکثریت پر دیوبندی شدت پسندوں نے ضیاالحق کے دور میں غلبہ حاصل کر لیا۔ البتہ ایونگ کا ماننا ہے کہ قدامت پسندانہ ضیا حکومت نے بھی صوفیا کی تاریخ کو تبدیل کیا اور ضیاالحق کے دور حکومت میں ان صوفیا کو مذہبی عالم اور مولویوں کے روپ میں پیش کیا گیا۔ جب 80 کی دہائی میں ریاست کی اپنی تشکیل دی گئی اور دیوبندی عسکریت پسندی بعد میں ریاست کے ہی خلاف مختلف عسکریت پسند گروہوں اور جماعتوں کو جنم دینے کا باعث بنی تو پرویز مشرف (1999-2008) نے ریاست کے سپانسرڈ طریقت کے نظریات کو دوبارہ زندہ کیا تاکہ وہ اپنے ترقی پسندانہ اور اور اعتدال پسند خیالات کا پرچار کر سکے۔
اس ضمن میں نیشنل صوفی کونسل ( NSC)کو تشکیل دیا گیا اور بعد میں رومی فورم کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ دونوں اداروں نے صوفیا کی فلاسفی، شاعری اور موسیقی کو فروغ دیتے ہوئے ثقافتی اور دانشوارانہ اقدار کو نمایاں کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس دفعہ صوفیا اور اولیا کو ایسے آدمیوں کے روپ میں پیش کیا گیا جنہوں نے "صیح اسلام کے اصولوں" کا پرچار کیا تھا اور یہ اصول امن، محبت اور برداشت تھے۔
فیلیپون لکھتا ہے کہ اس بیانئے کے باعث ہی ایک سوچ پیدا ہوئی جو پاکستان کے زیادہ تر بریلویوں کے طریقت کے نظریے سے ملتی جلتی تھی۔ یہ سچ ہے کہ بریلویوں کی مذہبی قیادت مخالف سنی فرقے کے ذیلی فرقوں کے شدت پسند گروہوں کی سخت مخالف تھی۔ لیکن جس امر کو نظر انداز کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ قیادت ریاست کے تشکیل کردہ طریقت کے نظریے کی بھی مخالف تھی۔ اس مخالفت کا سب سے پہلے اظہار جمعیت علمائے پاکستان نے کیا اور بعد میں یہ مخالفت سنی تحریک کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملی۔
شدت پسند بریلویوں نے بالآخر دوسری آئینی ترمیم اور آرڈینننس (جو احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بارے میں تھے) اور 1986 میں توہین مذہب کے بنائے گئے قوانین کا خود ساختہ محافظ بن کر مرکزی دھارے میں اپنی چھوٹی سی جگہ بنا ہی لی۔ ان بریلویوں کی ریاست کے تشکیل دیے گئے طریقت کے بیانئے سے مخالفت شدت پسند جماعت تحریک لبیک کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی۔ اس جماعت کے ایک ہمدرد نے فلیپون کو بتایا کہ طریقت کی وہ تشریح جو ایوب خان، بھٹو اور مشرف نے کی، دراصل واشنگٹن کا ایجنڈا تھا اور طریقت لوگوں کو پرتشدد مزاحمت سے کبھی بھی منع نہیں کرتی ہے۔
اسے بریلویوں کا موجودہ شدت پسندانہ رجحان قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ ان کے بارے میں سابقہ تصورات جو انہیں غیر سیاسی اور امن سے محبت کرنے والی روحیں قرار دیتے ہیں ان کی نفی کرتا ہے۔