اماں کوئی 17 سال کی ہوں گی جب وہ ایک دن سکول سے گھر واپس آئیں اور میری نانی نے ان کو بتایا کے ان کی منگنی ہو گئی ہے۔ اتفاقاً، ابّا کے چچا اور میرے نانا دوست تھے اور انہوں نے سوچا کیوں نہ اس عظیم دوستی کو ایک ارینج رشتے داری میں تبدیل کر دیا جائے۔ میرے ابّا تب کوئی 25 سال کے تھے اور ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ گھر بار ہندوستان میں، لیکن نوکری کا جنجال بنگال میں تھا۔
الله الله خیر سلا، مارچ 71 میں اماں نے ابّا کے نام کی انگوٹھی پہن لی، اور حالات کو کروٹ لیتے دیکھنے لگیں۔
یہی وہ مہینہ بھی تھا جب پاکستانی افواج نے ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا تھا اور شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار بھی اسی دوران کیا گیا تھا۔ آج بھی سقوط ڈھاکہ کی تاریخ اور بنگلہ دیش کی آزادی کی تاریخ مختلف ہے۔
حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے نانا نانی نے اماں ابّا کی شادی عجلت میں اسی سال اگست میں کر دی۔ ماں باپ کو لگا لڑکی اپنے گھر کی ہوگی تو عزت کم خطرے میں رہے گی، مگر یہ خام خیالی تھی۔
مارچ کی آزادی سے سقوط ڈھاکہ تک، مشرقی پاکستان میں ایک عجیب تلاطم تھا۔ قتل و غارت اور جنگی حالات روزمرہ کا معمول تھے۔ عورتوں، بچیوں کا گھر سے نکلنا تقریباً بند تھا۔ چند عقلمند لوگ تھے اور حیثیت بھی رکھتے تھے، انہوں نے سقوط کا انتظار نہ کیا بلکہ بذریعہ نیپال، لندن چلے گئے۔ پھر وہاں سے کراچی کوچ کیا۔
جنہوں نے اچھے وقت کی امید اور انتظار کیا، وہ جنگی قیدی بن گئے جیسے میرے اماں ابّا اور ڈھیروں دوست، رشتےدار، پڑوسی وغیرہ۔
قیدی بننا تو بعد کا ظلم تھا، میری اماں اس سے پہلے ایک اور ظلم سہہ رہی تھیں لیکن شور کرنے یا ماتم منانے کا وقت نہ ملا۔ میری نانی، انہیں شب و روز کے ہنگاموں میں ایک روز اپنے 8 سالہ بھانجے کے ساتھ پڑوس میں جانے کو نکلیں اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں۔ میرے نانا نے کئی سال وہیں گزارے، آبائی لوگوں کی مدد سے بہت ڈھونڈا مگر سب بے سود۔
آج بھی میری اماں اکثر مجھے کہتی ہیں کہ تمہاری نانی میرے خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ کیا معلوم وہ زندہ ہوں؟ کیا وہ مجھ سے ناراض ہیں؟
حد تو حد ہم نے آیت اللہ سے بھی پوچھوا لیا کہ نانی خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ وہ بھی جواب دینے سے قاصر رہے۔
ہم آج بھی فاتحہ درور کرتے ہیں مگر میری ماں نے اپنی ماں کا چہرہ دیکھے بغیر انہیں مردہ تصور کر لیا ہے اور اس کا درد انھیں آج بھی ہے۔ جنگ بنجر کر دیتی ہے اس زمین کو بھی جہاں اس کا خون بہا اور ان کا بھی جو کبھی اس زمین کے باسی تھے۔
راتوں رات گھر گلیاں چوبارہ سب چھوڑا، قیدی بننے سے پہلے اتنی بھی مہلت نہیں ملی کے اپنے بچپن، لڑکپن، اور جوانی کو الوداع کہتے یہ لوگ۔
اماں ابّا کو لگا چلو جب سب ٹھیک ہوجائے گا تو گھر واپس آجائیں گے۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اب جو گئے تو اجنبی ہوں گئے۔ نئے نویلے دولہا دلہن نے فوجی ٹرک میں اپنی ہجرت کا آغاز کیا۔ لوگوں کے پاس ان کے والدین کی نشانیاں ہوتی ہیں جیسے شادی کا جوڑا، کوئی زیور، یا کوئی بھی اور ایسی چیز جو نسل در نسل یاد کے طور پر منتقل ہوتی ہے۔
مجھے میری اماں سے بس قصّے اور یادیں ملیں۔ وہ سب کچھ جو انہوں نے ہمارے بڑے ہونے پر ہمیں بتائی۔ میرے ابّا تو بمشکل ہی بات کرتے ہیں ان 22 مہینوں کے بارے میں جو انہوں نے قید میں گزارے، یا وہ وقت جو انہیں کیمپ تک پہنچنے میں لگا، یا پھر وہ سب کچھ جو انہوں نے ڈھاکہ چھوڑتے وقت دیکھا۔ بزرگ کہتے ہیں، ہم نے جوان بچیوں کو کنویں میں کودتے دیکھا، نالیوں سے خون بہتا دیکھا، اور تو اور سقوط میں الجھے انسانوں کو بچھڑتے اجڑتے دیکھا۔
17 دسمبر کو جو شہر چھوڑا تو پھر کبھی واپس نہیں گئے۔
میں نے اکثر خود کو رکھ کر سوچا کے کوئی مجھ سے میرا کراچی چھین لے، یا مجھے کہے اب یہ تمہارا گھر نہیں تو مجھے یقین ہے کہ میرا دل بند ہوجائے گا۔ جس شہر نے میرا وجود، میری شخصیت سینچی، وہ دھڑکن کا ایک حصّہ ہوتا ہے۔ میں کہیں بھی گئی، اس امید سے گئی کہ گھر تو کراچی ہے۔
ایک میں ہوں جو سوچ بھی نہیں سکتی اور ایک مہاجرین ہیں جن کے پاس واپسی کا راستہ ہی نہیں، جن کی یادوں پر خون کے دھبّے اور چیخوں کا دھمال ہے۔
چند روز پہلے جب کرتارپور بارڈر کی تقریب دیکھی، اور اس سے جڑی خبریں جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنے بارڈر پار آئے ہیں، تو میں نے مجبوراً سوچا کہ اماں سے پوچھوں اگر وہ ڈھاکہ چلنا چاہیں گی؟
اماں نے کہا، "بیٹا، اس بڑھاپے میں اتنی ہمّت نہیں کہ اس یاد سے پھر گزریں"
میری اماں کا آبائی گھر اب ایک بڑے شاپنگ مال میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آس پاس کی گلیاں، علاقے، محلے، سب بدل گیا ہے۔ کچھ نہیں بدلا تو میرے والدین کے اندر ہجرت کا درد۔