آج 16 دسمبر ہے، یہ تاریخ سانحہ سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاتی ہے، جب دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان سے راہیں جدا کر لی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کون سے محرکات نے اس المیے کو جنم دیا؟ اس خصوصی رپورٹ میں اس پر غور کریں گے۔
سانحہ سقوط ڈھاکہ پر نیا دور سے بات کرتے ہوئے تاریخ دان الحان نیاز کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں سیاسی عوامل، معاشی عوامل، فوجی اور اسٹریٹجک عوامل اور 1969 سے 1971 کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو درست طریقے سے حل نہیں کیا جانا شامل ہے۔
سیاسی عوامل
سقوط ڈھاکہ کے سیاسی عوامل پر بات کرتے ہوئے الحان نیاز کا کہنا تھا کہ پاکستان مختلف صوبوں کی آئینی فیڈریشن کے طور پر معرضِ وجود میں آیا تھا جس کے لیے آئین سازی کا عمل ملک کر کے ایک حتمی آئین تیار کرنا تھا۔ لیکن، بدقسمتی سے یہ عمل تاخیر کا شکار ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ونگ کے حکمران حلقوں میں اس بات کا خوف تھا کہ جمہوری نظام مشرقی ونگ کی مستقل اکثریت کا باعث بنے گا۔ اس لیے مغربی ونگ کی ملٹری اور بیوروکریٹک قیادت سیاسی عمل میں مداخلت کر کے ایسے اقدامات کرتی رہی جس سے مشرقی پاکستانیوں کی جمہوری اکثریت کو نقصان پہنچاتا تھا۔ ان اقدامات میں ون یونٹ کی تشکیل اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزارئے اعظم خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا اور حسین سہروردی کی برطرفیاں شامل ہیں۔
یہ سب اقدامات آئینی عمل میں بگاڑ کا باعث بنے۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا بھی مشرقی پاکستان کی محرومیوں میں اضافے کا سبب بنا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ہونے والے انتخاباات کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ کسی شفاف جمہوری طریقے سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ محرکات تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی رائے بدلی اور شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات سامنے آئے۔
معاشی عوامل
ان تمام سیاسی عوامل کے ساتھ معاشی عوامل بھی پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان تقسیم کی وجہ بنے۔ الحان نیاز کا کہنا تھا کہ برٹش انڈیا میں مرکزی حکومت اور صوبوں کے درمیان ریونیو تقریباً برابر تقسیم ہوتا تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو ملک کی مرکزی حکومت نے ریونیو کا 90 فیصد حصہ رکھنا شروع کر دیا جبکہ صوبوں کو صرف 10 فیصد دیا جاتا تھا۔
اب مشرقی پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے مجموعی ریونیو کا زیادہ تر حصہ وہاں سے آتا تھا لیکن بدلے میں انہیں بہت کم حصہ ملتا تھا۔ 1948 سے 1961 تک ہی دیکھا جائے تو مرکزی حکومت مجموعی ریونیو میں سے 80 فیصد مغربی حصے پر خرچ کر رہی تھی اور صرف 20 فیصد ہی مشرقی پاکستان پر خرچ کیا جا رہا تھا جبکہ ترقیاتی بجٹ میں سے بھی صرف 30 فیصد ہی مشرقی پاکستان کو ملتا اور 70 فیصد مغربی پاکستان پر خرچ ہوتا تھا۔
مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کا مطالبہ تھا کہ جب وہ ملک کی مجموعی اکانومی میں برابر کا حصہ ڈال رہے ہیں تو وسائل کی تقسیم میں بھی انہیں برابر حصہ دیا جائے۔
فوجی اور اسٹریٹجک عوامل
الحان نیاز کے مطابق سیاسی اور معاشی عوامل کے بعد فوجی اور اسٹریٹجک عوامل بھی سقوط ڈھاکہ کی وجہ بنے، اس سلسلے میں 1965 کی جنگ سب سے اہم ہے۔ 1965 تک پاکستان کی عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغرب میں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ فوجی تصادم کی صورت میں، مغربی پاکستان اپنی فوجی طاقت سے مشرقی حصے کی حفاظت کرے گا۔ لیکن جب 1965 میں جنگ ہوئی تو مغربی پاکستان بمشکل اپنا دفاع کرسکا اور مشرقی پاکستان بے یارومددرگار رہا۔
یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے مجیب الرحمان نے اپنے چھ نکات میں بحریہ کے ہیڈکوارٹر کو مشرقی پاکستان میں منتقل کرنے اور مشرقی پاکستان کی الگ فوج کا مطالبہ کیا تھا۔
الحان نیاز کے مطابق یہ وہ تمام محرکات و عوامل تھے جنہوں نے سانحہ سقوط ڈھاکہ کو جنم دیا۔