ہمارے اس خطے کی ہزاروں خوبیاں ہیں مگر خامیاں بھی دنیا سے عجیب ہیں۔ یہاں آج تک اس بات کی وضاحت نہیں آ سکی کہ انگریز سے اس خطے کو نجات دلائی گئی یا پھر اس مزید مشکل نظام میں اس کو دھکیلا گیا، البتہ عوامی سطح جسے آپ تھڑے بازوں کی رائے بھی کہہ سکتے ہیں وہ اس بات پر دونوں اطراف بھارت اور پاکستان میں قائل ہو چکے ہیں کہ جس آزادی کے نعرے اور انگریز تسلط سے جان چھڑوانے کی باتیں کی گئی تھیں وہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ایک عوامی سوال بڑا مضبوط ساکھ کا حامل ہے کہ کیا ایسا نظام جس کا مالک سامنے ہو وہ نظام عوام کیلئے بہتر ہے یا ایسا نظام جس میں مالک تو کوئی اور ہو مگر سامنے اس کے پیادے ہوں اور عوام پر ان دیکھے مالکوں کے فیصلوں کا نفاذ کرتے ہوں؟ خیر یہ تو ایک رائے ہے، اس سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے مگر واقعات و حالات اس مؤقف کی شاید کہیں نا کہیں دلیل ہیں۔
انگریز کے تسلط سے نجات میں جو نام سب سے سر فہرست اور مسلح جدوجہد کا حامی تھا وہ سبھاش چندر بوس تھے جن کو نیتا جی بھی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جس کا عوام کو بتایا گیا تھا بلکہ یہ وہ گھناؤنا معاہدہ چند سیاست دانوں اور انگریزوں کے درمیان تھا جو کہ عوام کیلئے مزید افسوس ناک ہے۔ ویسے یہ بات انہوں نے اپنے مرنے کے بعد گمنامی بابا کے نام سے جب ان کو پہچانا گیا تب کہی تھی۔ اب اس پر بھی بحث تو ہو سکتی ہے کہ بھارت میں بعد از آزادی کئی سال بعد جو گمنامی بابا کے نام سے مشہور شخص تھا وہ واقعتاً نیتا جی تھے یا نہیں تھے، لیکن سابقہ صحافی و لکھاری انوج دھر جنہوں نے اپنی رپورٹ میں ثبوتوں کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا کہ وہ نیتا جی ہی تھے اور 1945 میں کوئی جہازکریش ہوا ہی نہیں تھا بلکہ یہ ایک پلان تھا۔ بوس بعد میں گمنامی بابا کے نام سے بھارت آئے اور اپنی طبعی موت مرے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اتنے اہم اور بڑے لیڈر کے بارے میں آخر بھارتی سرکار سمیت سب خاموش کیوں رہے؟ ان سے متعلق رپورٹس کو پبلک کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کے دو اہم پہلو ہیں؛ ایک یہ کہ ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا اور دوسرا ان کی موت کی پراسرار کہانی روس سے جڑی ہوئی ہے۔
دوسری کہانی بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی ہے۔ یہاں بھی موت روس میں ہوئی اور پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔ حیرانگی اس بات کی ہے کہ بھارت نے اپنے وزیر اعظم کے مرنے پر بھی اس بات پر زور نہیں دیا کہ جب لاش بھارت آئی ہے تو اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے اور سرکاری ریکارڈ میں ان کی موت کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔ حالانکہ اس بات کے واضح ثبوت موجود تھے کہ لال بہادر شاستری کو زہر دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے جسم پر باقاعدہ کٹ موجود تھے جن سے خون تک بہہ رہا تھا۔
ایک نظریے کے مطابق اس سب میں سوویت یونین شامل تھا کیونکہ بھارت کو شاستری جی کی موت کا نقصان ہوا اور وہاں کچھ سالوں میں ایمرجنسی لگائی گئی اور تمام صحافیوں، اپوزیشن سمیت دانشوروں کو قید میں ڈالا گیا جنہوں نے اندرا گاندھی کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ بھارتی پارلیمان میں بہت مرتبہ مانگ کی گئی کہ لال بہادر شاستری کی موت پر تفصیلی انکوائری رپورٹ پیش کی جائے مگرایسا نا ہو سکا۔
پاکستان میں بھی ایسے کیسز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بات تو بانی پاکستان کی موت سے شروع ہو جاتی ہے جہاں بے شمار پہلو ایسے ہیں جن پر عالمی مصنفوں سمیت پاکستانیوں نے بھی کئی مرتبہ سوال اٹھائے مگر وہ سوالات آج تک صرف سوال ہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں ایسے کیسز میں وہاں کی حکومت نے کوئی نہ کوئی مقابلے کی ایک تھیوری ضرور پیش کی جس پر وہ عوام کو کہیں نا کہیں گمراہ کر سکیں مگر پاکستان میں تو اس بات کی بھی زحمت نا کی گئی کہ کوئی مضبوط دلائل یا نظریہ مقابلے میں عوام کو دے دیا جائے۔
جناح کی ایمبولینس کا پٹرول ختم ہونا، ان کے پاس ڈاکٹرز موجود نہ ہونا، ان کی گاڑی ایسی جگہ بغیر پروٹوکول کے خراب ہو جانا جہاں کوئی عام آدمی تک نہ رہتا ہو؛ آج تک ریاست نے جناح کی موت سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب پبلک نہیں کیا، نا ہی ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سمیت ان کی موت کی وجہ پر کوئی تفصیلی دستاویز انکوائری کے ساتھ جاری کی گئی ہے۔
اسی طرح پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ ان پر گولی چلانے والے کو کیسے فوری ہلاک کیا گیا، پھر اس کی اولاد سے متعلق بے شمار باتیں سامنے آئیں کہ وہ شاید مبینہ طور پر سرکاری رہائش گاہ میں رہتے رہے۔ حالانکہ ان کے قتل کو کتنے روپے میں طے کیا گیا اور کس نے کیسے کیا وہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے مگر آج تک یہ منطقی انجام پر نہ پہنچایا جا سکا۔
پاکستان میں سب سے پر اسرار موت یا شاید قتل کا واقعہ مادر ملت فاطمہ جناح کا ہے جس سے متعلق بے شمار شواہد اور گواہ موجود تھے مگر آج تک اس پر رپورٹ پبلک نہیں ہو سکی اور نا ہی شفاف انکوائری ہو سکی۔ یہاں بھی اہم چیز جو دوسری اموات سے مماثلت رکھتی ہے وہ پوسٹ مارٹم کا نہ ہونا ہے۔ فاطمہ جناح سے متعلق ان کے آخری روز جس دن ان کا مبینہ قتل ہوا دلچسپ اور حیران کن واقعات ہوئے۔ مادر ملت کا معمول تھا کہ وہ سونے سے قبل قصر فاطمہ (موہٹہ پیلس) کے تمام دروازے مقفل کر کے بالائی منزل میں اپنے کمرے میں سو جاتی تھیں اور صبح بیدار ہونے کے بعد چابیوں کا گچھا بالکونی سے نیچے پھینک دیا کرتی تھیں تاکہ ملازم سات بجے انہیں اخبارات پہنچا دیں۔ اخبارات دیکھنے کے بعد جب وہ نہا دھو کر تیار ہوتیں تو ملازم 10 بجے انہیں ناشتہ دے دیا کرتا تھا۔ ناشتے کے بعد محترمہ نچلی منزل میں اپنے دفتر میں آ جاتیں۔
مادر ملت کی موت کے متعلق 1971 میں کچھ انکشافات منظرعام پر آئے، یہ انکشافات محترمہ کی تجہیز و تکفین کرنے والی جماعت کے سربراہ 67 سالہ حاجی کلو اور تین عمر رسیدہ غسالوں نے کیے۔ بقول ہدایت اللہ عرف حاجی کلو؛ 'مجھے محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کی خبر خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ایک شخص نے آ کر دی۔ میں اس کے بعد جماعت کے دفتر گیا جہاں مسلم چانڈیو نے مجھے تجہیز و تکفین کی تیاری کی ہدایت کی۔ تینوں غسال فاطمہ سید، فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو اس خواب گاہ میں چلی گئیں جہاں مادر ملت کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ غسل کے دوران غسالوں نے دیکھا کہ محترمہ کے جسم پر گہرے زخم ہیں اور جگہ جگہ چوٹوں کے نشان ہیں، ہم خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ غسالوں نے محترمہ کے جسم پر نشانات اور گہرے زخم دیکھ کر احتجاج کرنا چاہا اور معاملے کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے زبان کھولی لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کی جائے'۔
حاجی کلو کا کہنا ہے کہ 'صبح کسی نے بتایا کہ مجھ سے پہلے کئی لوگ لاش دیکھ چکے ہیں جن میں ڈاکٹر واجد اور جناب اصفہانی بھی شامل تھے، کچھ بیگمات بھی شامل تھیں، میں خاموش ہو گیا کہ خدا جانے کیا مسئلہ ہے۔ بعد میں غسالہ فاطمہ سید نے مجھے بتایا کہ جب میں نے غسل کے لیے میت کا جائزہ لیا تو میری روح لرز گئی، مادر ملت کی گردن پر چار انچ سے زائد لمبا زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے، ان کے گھٹنے پر زخم تھا، دایاں رخسار سوجا ہوا تھا اور جسم نیلا ہو کر اکڑ گیا تھا، ان کی چادر اور لباس خون میں لت پت تھا اور خون کے خشک دھبوں سے کپڑا سخت ہو گیا تھا۔ میں نے محترمہ کے جسم پر زخموں کے بارے میں منہ کھولنا چاہا لیکن مجھے منع کر دیا گیا'۔
'خون آلود کپڑے میں اپنے ساتھ اجازت سے گھر لے آئی تھی، ایک سال تک یہ میرے پاس رہے، جب سڑنے لگے تو میں نے ان کو اپنے گھر کے پاس پلاسٹک کی تھیلی میں دفن کر دیا۔ میں یہ کپڑے لائی تو میری جماعت کے لوگوں نے مجھے خوف دلایا کہ میں ان کا کسی سے تذکرہ نہ کروں، میں خوف زدہ تھی، میرا ضمیر بار بار مجھے مجبور کر رہا تھا کہ میں وہ سب کچھ بتا دوں جو میں جانتی ہوں'۔
ایک اور غسالہ فاطمہ بائی بچو نے محترمہ فاطمہ کے جسم پر زخموں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے پیٹ میں ایک باریک سوراخ تھا جس سے متعفن پانی بہہ رہا تھا۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹ کے نیل پڑے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انہیں کسی نے زدوکوب کیا ہو۔
نور الصباح بیگم نے لکھا کہ 'جب لیڈی ہدایت اللہ واپس قصر فاطمہ پہنچیں اور کمرے کے نہ کھلنے پر پریشان تھیں تو ایک نوکر آیا جو فاطمہ جناح نے کچھ دن پہلے نکال دیا تھا اور اس نے لیڈی ہدایت اللہ سے کہا کہ میرے پاس ایک چابی ہے شاید یہ تالے کو لگ جائے۔ نوکر نے چابی دی، وہ چابی دروازے میں لگ گئی جس کے بعد لیڈی ہدایت اللہ نے تالا جوں کا توں دوبارہ بند کر دیا اور چابی اسی نوکر کو دے دی۔ میں نے لیڈی ہدایت اللہ سے بعد میں ایک ملاقات کے دوران پوچھا کہ سنا ہے کہ بعد میں وہ نوکر بھی غائب ہو گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ نوکر پھر نہیں آیا۔
نور الصباح بیگم نے لکھا کہ "کچھ عرصے کے بعد میں لیڈی ہدایت اللہ سے پھر ملی اور ان سے کہا کہ 'سنا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے گلے میں نشان تھے، دیکھیے اب تو ایوب خان کی حکومت بھی نہیں ہے، اب تو آپ مجھے بتا دیجیے کہ آیا محترمہ فاطمہ جناح کے گلے پر نشان تھے؟' تو لیڈی ہدایت اللہ نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ان کے گلے پر نشان نہیں تھے کیوںکہ لیڈی ہدایت اللہ نے ہی محترمہ کو (وفات کے بعد) سب سے پہلے دیکھا تھا'۔
2003 میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی سے مطالبہ کیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کے سلسلے میں قاضی فضل اللہ کی نگرانی میں جو انکوائری رپورٹ تیار ہوئی تھی اسے منظر عام پر لایا جائے۔
شریف الدین پیرزادہ نے مشرف دور میں کہا تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کے حوالے سے 14 اگست کو اہم انکشافات کریں گے لیکن وہ بھی بعد میں خاموش ہی رہے۔ جبکہ ایک اور انٹرویو میں شریف الدین پیر زادہ نے انکشاف کیا تھا کے قائد اعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان کو ایک درخواست دی تھی کہ چونکہ مادر ملت کو قتل کیا گیا اس لیے اس قتل کی تحقیقات کی جائیں لیکن ایوب خان نے قائد اعظم کے بھانجے کی یہ درخواست رد کر دی۔
ایک اور انکوائری رپورٹ جو مغربی پاکستان کے وزیر داخلہ قاضی فضل اللہ نے پیش کی تھی جس میں تفصیل سے موت کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی اور رپورٹ میں کہا گیا کہ میت کو غسل دینے والی تین خواتین اور تجہیز و تدفین کرنے والا حاجی کلو تھا، ان خواتین اور حاجی کلو کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے بدن، گردن اور جسم پر زخموں کے نشانات تھے مگر اس رپورٹ کو سامنے ہی نہ لایا گیا۔
محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی نماز جنازہ ان کی قیام گاہ موہٹہ پیلس پر شیعہ طریقے سے ادا کی گئی جبکہ عوام کے لیے نماز جنازہ کا اہتمام پولو گراؤنڈ میں کیا گیا۔ تدفین کے موقع پر عوام نے محترمہ کا چہرہ دیکھنا چاہا جس پر کھلبلی مچ گئی اور عوام کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرنا پڑا۔
مشہور صحافی اختر بلوچ نے اپنے ایک بلاگ 'قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا' میں لکھا ہے کہ 'جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے فاطمہ جناح کی وفات کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لیے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مجھے یہ تشویش ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو'۔ مگر اختر بلوچ نے یہ نہیں بتایا کہ پھر اس درخواست کا کیا ہوا۔