فضل الرحمان زندہ باد

فضل الرحمان زندہ باد
میرے دوست عرفان راجہ بڑے زیرک قسم کے دانشور ہیں۔ سرکار کے بندے ہونے کے باعث مصروفیت زیادہ ہے۔ فون پر گپ شپ کر لیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں مولانا کے آزادی مارچ اور نواز شریف کی مزاحمتی سیاست پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا جدید دور کے برقی تھڑے ہیں۔ زیادہ بات سوشل میڈیا پر ہی کی جاتی ہے۔

آج کل مولانا فضل الرحمان، آزادی مارچ اور نواز شریف کا مزاحمتی سیاست کی جانب رخ موضوع بحث ہے۔ زیادہ تر کا خیال ہے کہ عمران حکومت کی چھٹی ہونے والی ہے۔ حکومت نہ بھی گئی تو عمران خان ضرور جانے والے ہیں۔ لیگی کہتے ہیں کہ معاملات طے پا چکے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت بننے والی ہے۔ جیالے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت کی بات کرتے ہیں۔ غیرجانبدار رہنے والے کہتے ہیں کہ مقتدرہ عمران خان سے مایوس ہوچکی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو لانچ کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ سب اپنی سوچ کے مطابق درست کہتے ہیں۔ ایسے ہی ہوتا ہے جب سیاسی جماعتیں اپنی اہمیت اور افادیت کھو جاتی ہیں۔ قومی سطح پر قیادت کا بحران ہوتا ہے تو عوامی رجحانات اسی طرح تعمیر ہوتے ہیں۔ قیادت کے بحران میں مولانا فضل الرحمان نے جست خوب لگائی ہے، سب کو اپنی لین میں کھڑا کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کیا، حکومت اور میڈیا بھی مولانا کے آزادی مارچ کے سحر میں جکڑے نظر آتے ہیں۔

بلاول کی ریٹنگ تیسرے نمبر پر بھی نہیں رہی ہے، شہ سرخیاں اب مولانا کی ہی بن رہی ہیں۔ عرفان راجہ کا بنیادی سوال بھی یہی تھا کہ مولانا فضل الرحمان کسی اشارے پر متحرک ہوئے ہیں جبکہ راقم کا موقف ہے کہ مولانا اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میدان خالی دیکھ کر متحرک ہوئے ہیں۔ حکومت مسئلہ کشمیر پر شکست خوردگی کا شکار تھی۔ عوامی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر پر حکمران جماعت سے بہتر انداز میں احتجاج بھی نہیں ہوسکا۔ مجموعی طور عمران خان ملک کے اندر بھی کشمیر پر عوام کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر انسانی المیہ ہونے کے باوجود پاکستان میں مذہبی طبقات کا مسئلہ رہا ہے۔ کشمیر پر احتجاج مذہبی حلقے ہی کرتے رہے ہیں مگر اس بار کئی جماعتیں کالعدم قرار دیے جانے کے باعث کشمیر ایشو پر باہر نکلنے سے قاصر رہی ہیں۔ کالعدم جماعت الدعوۃ حافظ سعید بھی نہیں نکل سکتے تھے۔ جماعت اسلامی بھول کر گئی ہے، حالانکہ کشمیر ایشو جماعت اسلامی کی سیاست میں آکسیجن ہوا کرتا ہے۔ سراج الحق نے دیر کردی ہے۔

اس ساری صورتحال میں مقتدرہ اور حکومت کے لئے فضل الرحمان کا احتجاج انتہائی مناسب ہے۔ فضل الرحمان ایک منجھے ہوئے سیاستدان، مذہبی راہنما ہیں، پارلیمانی سیاست کرتے ہیں، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سیاستدان ہیں۔ مذہبی شدت پسندی اور جہادی ہونے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ مولانا فضل الرحمان کسی کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ حالات ایسے بن گئے کہ فضل الرحمان کے لئے بھی سود مند اور حکومت اور مقتدرہ بھی فائدے میں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تو حل ہو گیا ہے۔

میڈیا، سیاسی جماعتوں اور عوام کی توجہ اب آزادی مارچ نے حاصل کر لی ہے۔ کشمیر ایشو اب کشمیریوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ مقتدرہ اور حکومت بھی یہی چاہ رہی تھی۔ اس امر میں اب کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ مقتدرہ اور حکومت الگ الگ ہیں۔ کم از کم اگلے تین سال مقتدرہ اور حکومت میں فرق کرنا مشکل ہے۔ لہذا نواز شریف سے ڈیل کی خبریں، نواز شریف کی پیشی کے بہانے عوامی رونمائی سمیت آزادی مارچ اور مولانا فضل الرحمان کا متحرک ہونا کشمیر ایشو کے تناظر میں دیکھا جائے۔

حکومت جانے اور عمران خان کو ہٹائے جانے کی باتوں کو محض تفریح کے لئے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔