ٹپال کا اشتہار اور ڈاکٹر عابد غفور کی کلاس

ٹپال کا اشتہار اور ڈاکٹر عابد غفور کی کلاس
علم بشریات (Anthropology) کی کلاس تھی۔ عابد غفور صاحب صنعتی انقلاب کے بارے میں پڑھا رہے تھے۔ کلاس میں مباحثہ چل نکلا کہ صنعتی انقلاب نے کیسے سرمایہ دارانہ نظام کو جنم دیا اور کیسے سرمایہ دارانہ نظام نے گھریلو زندگی کو متاثر کیا۔

صنعتی انقلاب کی غالباً دوسری لہر تھی، لوگ بڑی تعداد میں دیہی سے شہری علاقوں میں منتقل ہو رہے تھے۔ شہر میں آباد ہونے والوں کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جانا خاصا مشکل تھا کیونکہ نوکری کے خواہشمندوں کی کوئی کمی نہ تھی اور اوپر سے اوور ٹائم کی لالچ کا بھی نظام نیا نیا تھا۔ وہ نوکری کو داؤ پر لگا کر یا مزید آمدن کو ٹھکرا کر اپنے گھروں کو جانے کے بجائے زائد آمدن گھر بھیجنے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔

لیکن گھر کی محبت کو دل سے ختم کردینا شاید کبھی بھی ممکن نہیں رہا۔ جوں ہی کسی کو کوئی آسامی خالی نظر آتی، وہ اپنی بیوی کو وہاں لگوا دیتا اور یوں بیویاں بھی شہر آ کر آباد ہو جاتیں۔ مسئلہ صرف بوڑھے والدین کا تھا، جنہیں ساتھ رکھنا زیادہ مہنگا اور مشکل تھا کیونکہ انہیں دینے کو جو وقت تھا، وہ صنعتوں اور مشینوں کی نظر ہو جاتا تھا۔ اس لیے والدین کو گاؤں ہی میں خرچہ بھیج دیا جاتا۔ صنعتی انقلاب کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ معمول زندگی نہ صرف عام ہوگیا بلکہ رائج بھی ہوگیا۔ اولڈ ہاؤسز اسی زنجیر کی ایک کڑی ہیں۔

اب دوسرا مسئلہ جو درپیش آیا وہ اولاد کا تھا۔ لوگوں کے لیے بچے پالنا مشکل ہو گیا۔ حاملہ خواتین کا کام کرنا مشکل تھا، مقابلے کی دوڑ سخت تھی۔ پیسے کی ریل پیل تازہ تازہ تھی، تو لوگوں نے اولاد پیدا کرنے کے بارے میں بھی احتیاط سے کام لینا شروع کردیا۔ کچھ نے ارادے کو لمبے عرصے تک کے لیے موقوف کردیا۔ یورپ میں جاری آبادی کا بحران اس سب کے نتائج میں سے ایک ہے۔

خیر، ہم نے جب آنکھ کھولی تو صحن میں چارپائی پر بیٹھی دادی کو دیکھا، گھر میں چاچی، تائی اور امی کی نوک جھونک دیکھی۔ چاچا، تایا کو گھر میں سب کے لیے تحفے تحائف لاتے دیکھا۔ سب کزنز کو ساتھ کھیلتے دیکھا۔ پھر وقت کو آنکھوں کے سامنے بدلتا بھی دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنا Personal Space مانگنے لگ گئے۔ Privacy Disturb ہونے لگ گئی۔ کم آمدنی کا مسئلہ سننے کو ملنے لگا۔ برکت کو رخصت ہوتے دیکھا اور بھی نہ جانے کیا کیا دیکھا۔ بقول داغ دہلوی

زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں

کل ٹپال دانیدار کا اشتہار دیکھا تو ڈاکٹرعابد ایک دم یاد آگئے۔ لڑکا گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی سے چائے کا کپ مانگتا ہے اور تھک کر صوفے پر گرتا ہے۔ وہ بیوی سے چائے کا کپ مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ باس نے دماغ کی دہی کردی۔ جواب میں بیگم اسے جب بتاتی ہے کہ آج اس کی ماں بھی آئی تھی تو لڑکا اسے معنی خیز انداز میں دیکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ دن واقعی Tough تھا۔

کیا ماؤں کا گھر میں آنا دن کو مشکل کر دیتا ہے؟ اور وہ بھی اگر ماں لڑکے کی ہو؟

جس صنعتی انقلاب سے چھٹکارا یورپ آج تلاش کر رہا ہے، ہم اس صنعتی انقلاب کی جانب بانہیں پھیلائے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ جوائنٹ فیملی کو ایک عذاب بنا کر پیش کیا گیا۔ اولاد کو ایک مسئلہ بنا دیا گیا۔ ہاں، بعض اوقات مالی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ایک فرد کے کمانے سے گھر نہیں چل پاتا، Day Care Centre مجبوری ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ''زمانہ جہالت'' میں یہ ذمہ داریاں دادیاں اور نانیاں اٹھا لیا کرتی تھیں۔ لیکن وہ والدین جنہیں Day Care Centre جائز لگتے ہیں، انہیں Old Houses سے بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔

اور جہاں تک رہی بات اشتہاروں کی، تو اگر آدم بیزاری اور اکیلے رہنے کو ہی فروغ دینا ہے تو، تم، میں اور ایک کپ چائے بھی کیوں؟ میں، میں اور ایک کپ چائے نہ ہو جائے؟ کیا خیال ہے؟

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔