دفعہ 377: خوف، ظلم، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کی علامت

دفعہ 377: خوف، ظلم، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کی علامت
پاکستان میں خوف کا بیانیہ مقبول ہے۔ خوف غیرقانونی حکومتوں کا کارگر ہتھیار ہے۔ جنرل ضیا ء نے اقتدار پرقبضہ تو کرلیا تھا مگر مرتے دم تک خوف میں رہے تھے۔ اسی خوف کو انہوں نے اپنا ہتھیار بنایا اور اسکو اسلامی لبادہ پہناکر ظلم وجبر کے حربے آزماتے رہے۔ ملک وقوم آج بھی اس خوف پر کھڑی ریاست کی  پالیسیوں کے نتائج بھگت رہی ہے۔ خوف ،ظلم اور جبر قوموں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔

موجودہ عہد انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کی مانگ کا عہد ہے۔ نسل نو صدیوں کی جکڑبندیوں سے بغاوتیں کر رہی ہے۔ مگرغلامانہ عہد کا ایک قانون سیکشن 377 آج بھی تعزیرات پاکستان کا حصہ ہے۔ جو خوف ،ظلم ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کی علامت ہے۔

مجموعہ تعزیرات پاکستان کا بنیادی ماخذ تعزیرات ہند ہے۔ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے۔ جس کا مقصد قانون فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان میں شامل دفعہ 377 یا سیکشن 377 جو 158 سال پرانا برطانوی دور حکومت کا ایک قانون ہے، جس کے تحت مخصوص جنسی روابط کو غیرفطرتی جرائم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا دس سال قید ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی مرد، خاتون یا جانور کے ساتھ فطری اصولوں کے خلاف جنسی تعلق کا قیام جرم ہے۔
377  کا قانون تاج برطانیہ نے غیرجمہوری طریقے سے اپنے زیر تسلط علاقوں میں نافذ کیا تھا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کا عکاس ہے۔ سیکشن 377 کا برطانوی راج سے لیکر آج کے دن تک غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں خواجہ سرا بالخصوص اور عام شہری بالعموم اس قانون سے متاثر ہورہے ہیں ۔377 اسلامی قانون ہے اور نہ اسلام سمیت کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہے، بلکہ تاج برطانیہ کے ایک کمیشن جو 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس بابنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا، کی شفارشات پر ہندوستان میں غلامی کی جکڑ بندیوں کو مزید مضبوط کرنے لئے مسلط کیا گیا تھا۔ جس طرح لارڈ میکالے کا نظام تعلیم آج تک نوآبادیوں میں غلامانہ ذہینت کے تعلیم یافتہ لوگ پیدا کررہا ہے۔ سیکشن 377 بھی غلامی کی زنجیر کے طورپر آج بھی بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے۔

جس کی زندہ مثال ملائشیا کے سابق وزیراعظم انور ابراہم ہے۔ جس  کےخلاف سیکشن 377 کا سیاسی استعمال کیا گیا اور انور ابراہیم 9سال جیل میں رہے۔ پاکستان میں دفعہ 377 کا شکار بے شمار نوجوان ،خواتین و حضرات ہیں۔ جن کی زندگیاں برباد کردی گئیں اور بعض نے نجات کےلئے خودکشی کا راستہ اختیار کرلیا۔

سیکشن 377 کی آڑ لیکر پولیس بلیک میل کرتی ہےجو کہ معمول کا کام۔ بالخصوص نوجوان خواتین بات نہ ماننے کی پاداش میں 377 کی نشانہ بنتی ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں اس غیرانسانی اور غلامانہ قانون کوختم کردیا گیاہے۔ 2013 میں  بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377  کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیکشن 377 بالغ ہم جنس پرستوں کے درمیان ہونے والے اتفاقی جنسی تعلق پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ ان میں جسٹس انڈو ملہوترہ نے لکھا تھا کہ تاریخ اس کمیونٹی کے ممبران اور ان کے خاندانوں سے معافی مانگتی ہے کہ صدیوں تک انھیں جو تکلیف دی گئی اور ان کا بائیکاٹ کیا گیا، حالانکہ اس کا ازالہ کرنے میں دیر لگی۔ اس کمیونٹی کے اراکین انتقامی کارروائی اور ظلم و ستم کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

مملکت خدا داد پاکستان میں اس ظالمانہ ،سفاکانہ اور غیر منصفانہ سیکشن 377 کو انسانی بنیادوں پرفوری ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں رہنے والے اور مختلف جنسی رجحان رکھنے والے افراد اور خواجہ سرا ء دہرے جبر اور خوف سے بچ سکیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔