ان دنوں ہر جگہ معیشت کی زبوں حالی پر بحث کی جا رہی ہے۔ حکومت معیشت کی تباہی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو گردانتی ہے جبکہ اپوزیشن اس تباہی کا ذمہ دار حکومت کو سمجھتی ہے۔
بغور اگر دیکھا جائے تو جب نواز شریف نے ملک سنبھالا، ان کے سامنے تین بڑے مساٸل تھے۔ نمبر ایک، دہشت گردی؛ نمبر دو، لوڈ شیڈنگ؛ نمبر تین، معیشت۔
میں نے معیشت کا نمبر تیسرا اس لئے رکھا کیونکہ پہلے دو مسٸلے حل کیے بغیر معیشت کو بہتر کرنا ناممکن ہے۔ اسی لئے ن لیگ حکومت نے پہلی ترجیح امن و امان کو دی جس کو بحال کرنے میں وہ فوج کے تعاون سے کافی حد تک کامیاب رہی۔
ان کی دوسری ترجیح بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا جس میں وہ چین اور قطر کی مدد سے کافی حد تک کامیاب تو ہو گئے لیکن گردشی قرضے اور لاٸن لاسز میں کوٸی بہتری نہ لا سکے کیونکہ سیاسی حوالے سے یہ کسی بھی جماعت کے لئے سودمند نہیں کہ وہ بجلی چوروں پر ہاتھ ڈالے اس لئے یہ کام وہ آنے والی حکومت کے لئے چھوڑ گئے تاکہ جب وہ ایسا کریں تو ان کا ووٹ بنک خراب ہو۔ اس غفلت پر ن لیگ حکومت پر تنقید ہوتی رہی ہے۔
اس کے بعد اگر ان حالات کو مد نظر رکھا جائے تو ن لیگ کی حکومت میں معیشت بھی بہتری کی جانب گامزن تھی۔ کیونکہ جس ملک میں امن امان کے مساٸل اور تواناٸی بحران ہو تو ایسے حالات میں تمام معاشی اعشاریوں کو مثبت اور مستحکم رکھ کر جی ڈی پی بڑھانا اور ڈالر کو مستحکم رکھ کر افراطِ زر کو بھی کنٹرول میں رکھنا کسی کامیابی سے کم نہیں ہے۔
ہاں، قرضے بڑھے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑی گٸی ہے اور بجلی اور گیس کی پیداوار اور سپلاٸی بھی پوری کی گٸی اور دیگر انفرا سٹرکچر میں بھی بہتری آٸی ہے جو مستقبل میں معاشی ترقی میں کردار ادا کرے گی۔
معیشت کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب پنامہ سکینڈل آنے کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور معاملہ احتجاج کے بعد عدالتوں میں ایک سال چلتا رہا جس سے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہونا شروع ہوٸی اور پھر نواز شریف کی نااہلی کے بعد بھی جوڈیشل ایکٹوزم کی وجہ سے حکومت مفلوج ہوکر رہ گٸی اور غیر یقینی کی صورت حال جاری رہی پھر الیکشن کے دوران اس میں مزید اضافہ ہوا۔ الیکشن میں جو کچھ ہوا اس کے بعد اس صورت حال میں بہتری کی گنجاٸش بھی ختم ہوتی نظر آٸی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ن لیگ کی حکومت تھی اس وقت دنیا کے تمام مالیاتی و معاشی ادارے پاکستان کی معیشت کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کر رہے تھے لیکن اس وقت پاکستانی میڈیا کا ایک خاص حصہ اور عمران خان مسلسل معیشت کو تباہ حال بنا کر پیش کرتے رہے۔ ن لیگ دور میں مہنگاٸی کی شرح بھی کم رہی لیکن مہنگاٸی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بھی ٹھیک رہی لیکن اسے بھی اہمیت نہ دی گٸی لیکن ہاں تجارتی خسارہ بڑھا جس کی ایک وجہ جی ڈی پی گروتھ اور سی پیک کے منصوبے اور دیگر انفراسٹرکچر میں استعمال ہونے والی مشینری کی امپورٹ بھی ہے جس نے وقتی طور پر تجارتی خسارہ تو بڑھایا لیکن مستقبل میں یہ سرمایہ کاری ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے میں استعمال ہوگی کیونکہ ہماری ایکسپورٹ کم ہونے کی ایک بڑی وجہ کاسٹ آف پروڈکشن کا زیادہ ہونا اور دوسرا بنیادی ضروریات کی قلت بھی ہے۔ اسی وجہ سے سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں کاسٹ آف پروڈکشن کم ہو، بنیادی ضروریات مہیا ہوں۔
یہی وجہ تھی کہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مستحکم رکھا اور ایکسپورٹرز کو الگ سے سبسڈی دے کر ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی اور وقت نے ثابت کیا کہ اسحاق ڈار ٹھیک تھے کیونکہ موجودہ حکومت نے ڈالر کی قیمت کو بڑھا کر ایکسپورٹ بڑھانا چاہی لیکن تاحال ناکام ہو رہی ہے کیونکہ ایک مسٸلہ کاسٹ آف پروڈکشن کا ہے جو موجودہ مہنگاٸی کے بعد مزید بڑھ گٸی ہے اور بات وہیں آ کر رک گٸی ہے جہاں پہلے تھی۔
ن لیگ دور میں میڈیا اور اپوزیشن کی معیشت پر بے جا تنقید سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھیل کے کھلاڑیوں کو سارے کھیل کے نقصانات کا بھی اندازہ تھا۔ اسی وجہ سے پہلے ہی معیشت کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا جانے لگا۔
عمران خان کا خیال تھا کہ حکومت ملتے ہی اس نقصان کا ازالہ کر کے معیشت بہتر کر لی جائے گی اور نقصان کو پچھلی حکومت پر ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاٸیں گے اور پھر ان "کرپٹ لوگوں" کو جیلوں میں ڈال کر آرام سے دس سال حکومت کی جائے گی۔
خیال یہ تھا کہ ڈیم فنڈ کے نام پر بیرون ملک پاکستانیوں سے اتنے ڈالرز حاصل کر لیے جاٸیں گے کہ چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کچھ مدد لے کر اور میڈیا کو نتھ ڈال کر صورت حال قابو میں کر لی جائے گی اور امریکہ کو افغانستان میں مذاکرات میں مدد فراہم کر کے امریکہ سے بھی امداد بحال کروا لی جائے گی اور اسے بھی رام کر لیا جائے گا۔ یوں پچھلی حکومتوں کی طرح پاکستان کو اس بار آٸی ایم ایف نہیں جانا پڑے گا اور عمران خان کی بلے بلے ہو جائے گی، اور کہا جائے گا پاکستان نے کشکول توڑ دیا وغیرہ۔
لیکن حکومت کو پہلی ناکامی تب ہوٸی جب بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم کے چندے میں عدم دلچسپی دیکھنے میں آٸی اور سعودی عرب نے بھی یمن جنگ اور ایران کے حوالے سے سخت شراٸط پر پاکستان کو مدد کی پیشکش کی جن کو ماننا حکومت کے لئے مشکل اور پاکستان کے لئے نقصان دہ تھا۔ اس وجہ سے سعودی عرب سے بھی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ اس کے بعد چین اور متحدہ عرب امارات نے بھی توقعات کے مطابق مالی مدد فراہم نہ کی جس کی وجہ سے وقت ضاٸع ہوا اور غیر یقینی صورت حال بڑھتی چلی گٸی اور معیشت ڈوبتی رہی۔
پھر حکومت کو اندازہ ہوا کہ ان کی پالیسی بری طرح فیل ہو چکی ہے لہٰذا آٸی ایم ایف جانے کا سوچا گیا لیکن الیکشن سے پہلے کشکول توڑنے کے بلند بانگ دعوے آڑے آ گئے تو سوچا گیا کہ آٸی ایم ایف جانے سے پہلے ہی ان کی متوقع شراٸط پر عمل کر لیا جائے تو کم از کم اس تنقید سے بچا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آٸی حکومت نے غیروں کی ڈکٹیشن لی اور پھر جب ایسا کیا گیا تو مہنگاٸی کا طوفان آ گیا جس کی وجہ سے کاروبار بالکل منجمد ہو کر رہ گیا اور معیشت ڈوبنے لگی جس سے غیر یقینی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔
اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ معیشت کی اس قدر گراوٹ میں پچھلی حکومت کا ہاتھ ہے یا نہیں ہے لیکن جس طرح پشاور میٹرو کو لاہور، ملتان اور اسلام آباد میٹرو سے ممتاز کرنے کی خواہش نے پشاور میٹرو کا بیڑا غرق کیا اسی طرح اس میں کوٸی شک نہیں کہ اس حکومت کی بلاوجہ خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی خواہش اور حکمرانوں کی بے حسی اور خود غرضی نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔