گندم بحران تحقیقات: 'محکمہ خوراک میں تبادلوں کے وقت سیاسی دباؤ تھا'

گندم بحران تحقیقات: 'محکمہ خوراک میں تبادلوں کے وقت سیاسی دباؤ تھا'
گزشتہ دونوں آٹا چینی بحران رپورٹ نے ملکی سیاست میں زبردست ارتعاش پیدا کیا تھا تاہم ابھی چینی اور آٹا بحران رپورٹ میں اابھی بہت کچھ باہر آنا باقی ہے۔ اور اس حوالے سے اب خبریں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔

دی نیوز کے انچارج ایڈیٹر انویسٹیگیٹو سیل انصر عباسی کی جنگ اور دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق گندم سکینڈل کے حوالے سے ایف آئی اے کی ضمنی رپورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بھاری بھرکم شواہد اور مواد موجود ہے۔ انصار عباسی نے اسے  دھماکہ خیز مواد  قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ بزدار نے ایف آئی اے کے سامنے سیاسی ترجیحات پر محکمہ خوراک میں افسران کی تبدیلیوں کا خوداعتراف کیا۔ جبکہ بزدار حکومت نے اپریل تا نومبر 2019 سات ماہ کے عرصہ میں محکمہ خوراک میں چار سیکرٹریوں کے تبادلے کئے اور ان سکریٹریز نے 70 سے زائد بار ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو تبدیل کیا۔


خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایف آئی کی یہ ضمنی رپورٹ بتاتی ہے کہ محکمہ خوراک کے سیکریٹریز نے اپنے عرصہ تعیناتی  کے دوران لا تعداد تبادلے کئے ۔ ان سیکرٹریوں کا کہنا ہے انہوں نے چیف ایگزیکیٹو یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حکم پر ہی محکمے میں بار ہا تبدیلیاں کیں ۔ حتیٰ کہ بزدار کے زبانی احکامات پر افسران کے تبادلے کئے گئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کے استفسار پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے محکمہ خوراک میں سیاسی دباؤ پر مخصوص تبدیلیوں کا اعتراف کیا ۔ خبر کے مطابق حتیٰ کہ ایک سیکرٹری خوراک نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ دفتر سے زبانی احکامات پر کئی افسروں کا تبادلے ہوئے۔


اس خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ نے انکوائری ٹیم کو اپنا بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سچ ہے افسران کے تبادلوں اور تعیناتی میں سیاسی شخصیات نے ان سے رابطے کئے۔زیادہ تر تبادلے اور تعیناتیاں متعلقہ سیکرٹریوں کی سفارش پر ہوئیں ،کچھ سیاسی تقرریوں کی بھی گنجائش نکالی گئی ۔لیکن فیصلوں سے قبل اسپیشل برانچ سے بھی رائے لی گئی ۔


خبر میں یہ بھی انکشاف ہے کہ بزدار حکومت نے اپریل تا نومبر 2019 سات ماہ کے عرصہ میں محکمہ خوراک میں جن چار سیکرٹریوں کے تبادلے کئے اس حوالے سے قانونی لوازمات پورے کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ اس حوالے سے کوئی سمری نہیں پیش کی گئی اور نہ ہی محکمہ خوراک میں سیکرٹریوں کو عجلت میں تبدیل کر نے کی کوئی وجہ بتائی گئی ۔تبادلوں اور تعیناتیوں کے لئے تمام سمریاں مجاز حکام کی ہدایات کے عنوان سے کی گئیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سابق اور موجودہ چیف سیکرٹریز نے اس صورتحال کی تصدیق کی ہے۔

یہ بھی اہم انکشاف ہے کہ جس عرصہ میں پنجاب میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز  تبدیل ہو ئے، اس وقت تبادلوں اور تقرریوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب دفتر کی جانب سے پابندی تھی اور تمام ڈی ایف سیز کا تبادلہ وزیر اعلیٰ پنجاب دفترکی منظوری سے ہوا۔ اس بارے میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ایف آئی کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ اس سب کے دوران ان سے سیاسی رابطے کئے گئے تھے۔

یاد رہے اس سے قبل انصار عباسی ہی کی ایک خبر میں شوگر مافیا کو پنجاب کی جانب سے تین ارب کی سبسڈی دلانے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا کردار سامنے آچکا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ کیسے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ملی بھگت سے کابینہ اور بیوروکریسی کو چکمہ دے کر یہ سبسڈی پاس کرائی گئی۔