منگل کے روز وفاقی حکومت نے ایک قومی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ملک میں جاری لاک ڈاؤنز میں قدرے نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بہت سی صنعتیں اور کاروبار کھل گئے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک کا حجم بھی بڑھ گیا ہے۔ کہنے کو تو یہ قومی پالیسی ہے لیکن درحقیقت پی ٹی آئی حکومت کے دیگر اقدامات کی طرح یہ فیصلہ بھی تقسیم کا مؤجب بن گیا ہے۔ ایک طرف تو سندھ حکومت نے سخت لاک ڈاؤن کا دوبارہ سے اعلان کیا ہے تو دوسری طرف خیبر پختونخوا کی پالیسی بھی غیر واضح ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان تیمور جھگڑا اپنی ٹوئیٹس کے ذریعے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تفصیلات نشر کر رہے ہیں اور صوبے کے گمشدہ وزیر اعلیٰ وفاقی حکومت کے اعلانات دہرا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی پالیسی ہی قومی پالیسی ہے
ابھی بھی وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت ملک میں اس سنگین وبا سے مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو متحد کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بہت سے مبصرین کا یہ خیال تھا کہ شاید افواجِ پاکستان نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں لیکن اب بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ روزِ اوّل سے وزیر اعظم کی لاک ڈاؤن نہ کرنے کی پالیسی ہی قومی پالیسی ہے۔
وفاقی وزرا کی توجہ اپنے کام سے زیادہ سندھ حکومت پر ہے
حیرت تو اس بات کی ہے کہ ابھی بھی وفاقی حکومت اور اس کے وزرا کی توانائیاں سندھ حکومت اور اس کے سربراہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پہ تنقید کے نشتر برسانے پر صرف ہو رہی ہیں۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹے میں متعدد وفاقی وزرا نے مراد علی شاہ اور ان کی پالیسیوں کے خلاف پراپیگنڈا کی مہم میں شدت کے ساتھ اضافہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا سیل بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں اور کئی قومی اخبارات کے مدیر اس بات کا شکوہ کر چکے ہیں کہ ان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف گالیاں دی جا رہی ہیں بلکہ سندھ حکومت کی تعریف کرنے کو ایک گناہ تصوّر کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ میڈیا جو پیپلز پارٹی پر ایک دہائی سے تنقید کرتا آیا ہے، وہ آج اسی پارٹی کی حکومت کے اٹھائے ہوئے اقدامات کی ستائش کر رہا ہے، اور میڈیا کے اس رویے سے وفاقی حکومت شاید گھبرا گئی ہے۔
وزیر اعظم نام غریبوں کا لیتے ہیں لیکن پالیسیاں سرمایہ دار طبقے کے لئے بنائی جا رہی ہیں
ملک کو مستقل بنیادوں پر لاک ڈاؤن کی حالت میں رکھنا ناممکن ہے۔ لیکن جب وبا تیزی سے پھیل رہی ہو تو اس وقت لاک ڈاؤن ناگزیر ہے کیونکہ معیشت تو بعد میں سنبھل سکتی ہے لیکن قیمتی جانیں واپس نہیں آ سکتیں۔ اگرچہ کہ وزیر اعظم بارہا پاکستان کے محنت کش طبقے اور غریب خاندانوں کا ذکر کرتے آئے ہیں لیکن اس امر کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی حکومت ملک کے بڑے سرمایہ داروں اور بزنس لابیز کے نرغے میں ہے۔
سرمایہ دار طبقہ کسی بھی صورت اپنی فیکٹریوں کو بند کرنے پہ راضی نہیں، اور نہ ہی اپنے منافع میں کمی کے لئے راضی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بزنس لابی کو مجبور کیا جاتا کہ وہ چند مہینوں کے لئے اپنے مزدوروں کی اجرت بند نہ کریں اور اپنے بے پناہ سرمائے کو حکومت کی مدد کے لئے پیش کریں مگر وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اس طاقتور طبقے کے آگے لاچار نظر آتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں کاروبار اور ٹرانسپورٹ کو دوبارہ کھولنا جوا کھیلنے کے مترادف ہے، کہ اگر لوگ بچ گئے تو ٹھیک اور نہ بھی بچے تو تب بھی ٹھیک۔
ہم مغرب کی غلطیوں سے بھی سیکھنے کو تیار نہیں
شہریوں کی زندگی کے ساتھ اس بے حسی سے کھیلنا آج پاکستان کا سب سے اندوہناک واقعہ ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے فروری اور مارچ کے دوران اسی طرح کی پالیسی اختیار کی تھی جب ان کے ملک میں اس مفروضے کی بنیاد پر لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا کہ اگر ملک کی اکثریت کو وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو پھر عوام میں قوتِ مدافعت پیدا ہو جائے گی۔ برطانیہ میں نہ صرف یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا بلکہ بورس جانسن خود کورونا وائرس کا شکار ہو گئے اور مرتے مرتے بچے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور وہاں کے اعلیٰ ترین صحت کے نظام کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں۔
حکومت غریب کو اپنی ہی طے کردہ کم سے کم ماہانہ اجرت سے بھی کم پیسے دے رہی ہے
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت اپنے بجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے لئے صرف کر دیتی، قرضوں پہ سود کی ادائیگی اور سول ملٹری بیوروکریسی کے اخراجات کو منجمد کرتی اور تمام ایسے منصوبے جو مؤخر کیے جا سکتے تھے، ان پر کام روک دیتی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جو پچھلے دس سال سے جاری ہے، اسی کا نام بدل کر عوام کو یہ دکھایا گیا کہ حکومت اس ایمرجنسی میں کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے رہی ہے۔ احساس پروگرام عوام کی مدد کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن اس کا حجم کم از کم پانچ گنا زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان میں ایک طرف تو کم سے کم تنخواہ ساڑھے 17 ہزار مقرر کی گئی ہے لیکن حکومت تین مہینے کا اڈوانس 12 ہزار روپے کی صورت میں بانٹ رہی ہے جو کہ حکومت کی اپنی مقرر کردہ پالیسی سے انحراف ہے۔
اس وقت معاشی مشکلات صرف پاکستان کو درپیش نہیں بلکہ دنیا کا ہر ملک اسی صورتحال کا شکار ہے لیکن جن ممالک میں عوام کے جان و مال کا احساس ہے وہاں پر ریاستیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں ان ممالک کی عوام دوست پالیسیاں نظر آ رہی ہیں اور دوسری جانب پاکستان میں عوام کش اقدامات کو پراپیگنڈا کے تحت رائج کیا جا رہا ہے۔
کیا کل کو حالات بگڑے تو ان کی ذمہ داری لی جائے گی؟
اگر کورونا وائرس سے ہزاروں لوگوں کی اموات واقع ہو جاتی ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اور اگر عوام کے لئے کروڑوں ماسک دستیاب نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پچھلے دو مہینے میں وفاق اور صوبوں کی لڑائی، سیاسی محاذ آرائی، بلند و بانگ دعوے اور غریبوں کے درد کو نشر کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں ایک لاکھ ٹیسٹ بھی نہیں ہوئے اور اتنے ناقابلِ اعتبار اعداد و شمار کی بنیاد پر عوام کو جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم کورونا وائرس سے محفوظ رہیں گے۔ اب حکومت کی پالیسیوں پر تنقید صرف میڈیا اور عوامی سطح پر نہیں ہو رہی بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی برملا حکومت کی ناقص پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ایسی صورتحال میں وفاقی کابینہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہر طرف سے تنقید کا طوفان اٹھ رہا ہو تو اس وقت آپ کو اپنی اصلاح کی شدید ضرورت ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر پراپیگنڈے میں اضافہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
حکومت کی ریاستی معاملات پر گرفت کہیں نظر نہیں آتی
ایک طرف سرمایہ دار لابی کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے رجعت پسند ملا مساجد میں اجتماعات میں کمی کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ اور ساتھ میں میڈیا کی بھی خوب دھلائی ہو رہی ہے۔ کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود پاکستان کے سب سے بڑے پرائیویٹ میڈیا گروپ کے مالک کو ابھی تلک جیل میں بند رکھا گیا ہے تاکہ کوئی سوالات نہ اٹھائے جا سکیں۔
عام حالات میں تو نااہل حکومتیں گزارا کر جاتی ہیں لیکن اس طرح کے بحرانی حالات میں ان کی ناقص کارکردگی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اگر حکومت نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو یہ بھی اس طوفان میں بہہ جائے گی۔
مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔