حکومتی مشکلات ہیں کہ کم ہی نہیں ہو رہیں۔ ان میں سے ایک اہم مشکل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بھی ہیں جن میں آنے والا ہر جھٹکا پاکستان کی معیشت پر براہ راست اثر دکھا رہا ہے اور دکھائے گا۔
اب تک صورتحال یہ ہے کہ خود کو کم از کم ہینری کسنجر کے پائے کا سفارتی کھاڑی سمجھنے والے ہمارے شاہ جی اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودیہ مخالف ریمارکس کی وجہ سے جو حالیہ جھٹکا پاک سعودیہ تعلقات کو لگا ہے اس کی پاکستان کے لئے قیمت تقریبا چار سے پانچ ارب ڈالر تک رہی ہے۔ اور اسکے بعد سے ملک کے مقتدرہ تک میں ہل چل مچی ہے۔
لیکن پاک سعودیہ تعلقات موجودہ حکومت کے دور میں یہاں تک پہہنچے کیسے؟ اس حوالے سے سلیم صافی نے کالم لکھا ہے جس میں اس حکومت کی جانب سے ہونے والی بچگانہ سفارت کاری بارے سنسنی خیز انکشافات ہیں۔
اب چونکہ وہ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں اور عربوں کی حساسیت کو خود سمجھتے نہیں اور شاہ محمود قریشی میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف مشورہ دے سکیں اسلئے وہاں انہوں نے سعودی عرب کے تین مخالف ممالک (ایران، ترکی اور ملائیشیا) کے ساتھ نئے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق کیا جس پر محمد بن سلمان کا برہم ہوجانا یقینی تھا لیکن انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور یہ بھی دعویٰ کرڈالا کہ وہ امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کرنے جارہے ہیں۔
اب ہر کوئی جانتا ہے کہ سعودی پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ اس کی ثالثی کی بات کو برداشت نہیں کرسکتے تو ایران اورامریکہ کی ثالثی کی بڑھک کو کیسے ہضم کرتے۔ چنانچہ ردعمل میں جہاز کی خرابی کے نام پر ان سے جہاز واپس لے لیا گیا اور انہیں واپسی پر سعودی ائرلائن کی عام پرواز میں اس انداز میں واپس آنا پڑا۔ جدہ ائرپورٹ پر کوئی معمولی سعودی عہدیدار بھی ان کے استقبال کیلئے موجود نہیں تھا