جواہر لعل نہرو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ 14 نومبر 1889 کو پیدا ہونے والے جواہر لعل کے والد موتی لعل نہرو ہندوستان کے کامیاب ترین وکلا میں سے ایک تھے اور ان چند بھارتیوں میں سے ایک تھے جو انگریز سرکار کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ یوں کہا جائے کہ موتی لعل نو آبادیاتی نظام میں اعلیٰ ترین ہندوستانی اشرافیہ کا حصہ تھے تو غلط نہ ہوگا۔ نہرو نے گریجویشن Trinity College, Cambridge سے کرنے کے بعد بار ایٹ لا Inner Temple سے کیا۔ 1912 میں انہیں بار کی دعوت مل گئی لہٰذا اگست 1912 میں وہ ہندوستان واپس آ گئے اور الہٰ آباد ہائی کورٹ میں بطور وکیل پریکٹس شروع کر دی۔
ہندوستان واپسی اور کانگریس میں شمولیت
ہندوستان واپسی کے فوراً بعد نہرو نے پٹنا میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک اجلاس میں شرکت کی لیکن وہ اس سے زیادہ متاثر نہ ہوئے اور اسے بنیادی طور پر انگریزی بولنے والے امیر ہندوستانیوں کا ایک گروہ قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے جنوبی افریقہ میں اس وقت مہاتما گاندھی کی جانب سے ہندوستانیوں کے لئے چلائی جانے والی تحریک کے لئے فنڈ اکٹھے کرنے کے لئے کانگریس کا ساتھ دیا۔
جنگِ عظیم اور نہرو کی مشکل
چند ہی ماہ بعد پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ جہاں ایک طرف ہندوستان کے پڑھے لکھے عوام انگریزوں کو مشکل میں پڑا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، ہندوستان کی اشرافیہ پوری طرح انگریزوں کے ساتھ تھی۔ نہرو کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ وہ پڑھے لکھے نوجوان ہندوستانی بھی تھے لیکن اشرافیہ سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ اس جنگ میں نہرو کے مطابق ان کی ہمدردیاں انگریزوں کے اتحادی فرانس کے ساتھ تھیں کیونکہ وہ فرانس کی ثقافت کے دلدادہ تھے۔
گاندھی کی واپسی اور نہرو کی ان سے محبت
1915 میں گاندھی بھی ہندوستان واپس آ گئے۔ جنوبی افریقہ میں ان کی کامیاب مہمات کے وقت سے ہی جواہر لعل ان کے مدح تھے اور گاندھی کے کانگریس میں آنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ ان کے نئے طور طریقوں سے مزید متاثر ہوتے گئے۔ گاندھی نے کانگریس کی ہئیت بالکل تبدیل کر کے رکھ دی۔ جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسے قانون کے دائرے میں رہ کر کھیلنے والے کانگریسی رہنما اس نئی کانگریس کے ساتھ نباہ نہ رکھ سکے، وہیں نوجوان ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد گاندھی جی کے عوامی سیاست کے فلسفے سے متاثر ہونے لگی۔ 1918 تک تو گاندھی نے بھرپور انداز میں انگریز کا ساتھ دیا کیونکہ انہیں امید تھی کہ جنگ عظیم میں اگر ہندوستان نے انگریز کا ساتھ دیا تو بدلے میں انگریز ہندوستانیوں کو آزادی دے دیں گے۔ لیکن جب یہ نہ ہوا تو انہوں نے عوامی سیاست کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔
جواہر لعل نہرو جو پہلے ہی کانگریس کی ڈرائنگ روم قسم کی سیاست کو ناپسند کرتے تھے، اس نئی عوامی سیاست میں گاندھی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ ابتدا میں موتی لعل نہرو نے گاندھی کے طرزِ سیاست کو پسند نہ کیا لیکن بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ بھی گاندھی کے اطوار سے سمجھوتہ کر بیٹھے۔
عدم تعاون کی تحریک
1920 سے 1927 کے دوران گاندھی جی کی جانب سے چلائی جانے والی Non-cooperation Movement وہ پہلی تحریک تھی جس میں نہرو کو اپنی قائدانہ صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا۔ اس تحریک کے دوران وہ دو مرتبہ گرفتار ہوئے اور جب ان کے والد نے سی آر داس کے ساتھ مل کر سواراج پارٹی بنائی تو نہرو نے اس میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے مہاتما گاندھی کے ساتھ کانگریس میں رہنے کو ترجیح دی۔
کانگریس کے منشور میں سیکولر ازم کی شمولیت
1927 میں کانگریس کی آزادی کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی دلوانے کے لئے ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں جب برسلز، بیلجیئم میں ہونے والی محکوم قوموں کی کانگریس میں انڈین نیشنل کانگریس کو بھی دعوت دی گئی اور یہاں ہندوستان کی نمائندگی نہرو نے کی۔ ان کی اس کاوش کے باعث ان پر ہٹلر کی حمایت کا الزام لگا تو انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین میں عربوں کی آزادی کی جدوجہد کا ساتھ اس لئے دے رہے ہیں کیونکہ یہ برطانوی سامراج کے خلاف ہے۔ ہماری ہمدردیاں اس وجہ سے کمزور نہیں ہو سکتیں کہ ہٹلر کے مفادات بھی برطانوی سامراج کی فلسطین میں شکست سے جڑے ہوئے ہیں۔
رفتہ رفتہ نہرو نے انڈین نیشنل کانگریس کی حکمتِ عملی پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ وہ جماعت کی انسانی حقوق اور معیشت سے متعلق معاملات پر پالیسی سازی خود مرتب کرنے لگے۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ کانگریس کے بنیادی مقاصد میں مذہبی آزادی، تنظیم سازی کی آزادی، آزادی اظہار رائے اور رنگ، نسل، مذہب کی تفریق سے قطع نظر قانون کے سامنے سب کی برابری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے مقامی ثقافتوں اور زبانوں کے تحفظ، مزدور اور ہاری کے مفادات کے تحفظ، ذات پات کے نظام کے خاتمے، بالغ رائے دہی کے نظام، شراب پر پابندی، صنعتوں کو قومیانے، سوشلزم اور ایک سیکولر بھارت کے قیام کو کانگریس کے منشور کا حصہ بنایا۔
’انگریزو بھارت چھوڑو‘
نہرو ان اولین ہندوستانی رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے انگریزوں سے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ 1927 میں گاندھی جی کی مخالفت کے باوجود نہرو کی قرارداد کانگریس کے پٹیالہ اجلاس میں منظور کر لی گئی جس میں انہوں نے ہندوستان کے لئے مکمل آزادی کی مانگ کی تھی۔ 1928 میں گاندھی جی نے بھی بالآخر ان کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس سوچ کو اپنانے کا اعلان کر دیا اور دو سال کے اندر اندر انگریزوں کو ہندوستان کو dominion status دینے کا مطالبہ کیا اور یہ تنبیہ کی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کانگریس تمام ہندوستان سے عوام کو آزادی کے لئے جدوجہد کے لئے دعوت دے گی۔ کانگریسی رہنماؤں کے دباؤ پر اس مہلت کو مزید کم کر کے ایک سال کر دیا گیا۔
نمک ٹیکس کے خلاف جدوجہد
1930 میں نہرو ابتدائی طور پر گاندھی جی کے نمک ٹیکس کے خلاف تحریک کے حامی نہیں تھے۔ اس وقت ہندوستان کے ساحلوں سے نمک کشید کرنے پر برطانوی حکومت کی جانب سے ٹیکس نافذ تھا۔ گاندھی جی نے اعلان کیا کہ وہ نمک کو بغیر ٹیکس دیے کشید کریں گے کیونکہ یہ ہندوستان کی سرزمین کا حصہ ہے۔ اس تحریک کی کامیابی اور عوام میں پذیرائی دیکھ کر جواہر لعل نہرو نے بھی نمک کی بطور ایک علامت کے اہمیت کو سمجھا اور گاندھی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
1937 کے انتخابات
اس تحریک اور انگریزوں سے مسلسل آزادی کے مطالبے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر 1935 میں انڈین ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے بعد ہندوستان میں بالغ رائے دہی کے نظام کے تحت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نہرو نے 1937 کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی اور پورے ہندوستان سے بھاری ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اسی موقع پر نہرو نے اعلان کیا کہ مسلم لیگ کی واضح شکست کے بعد یہ طے ہے کہ ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، ایک کانگریس اور دوسری برطانوی سامراج لہٰذا ہندوستان کی آزادی کے لئے برطانوی افسرِ شاہی کو جو بھی مذاکرات کرنا ہیں، وہ کانگریس ہی سے کیے جائیں۔
ابوالکلام آزاد کو قائد اعظم کے مقابل لیڈر بنانے کی ناکام کوششیں
نہرو چاہتے تھے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستانی مسلمانوں کا رہنما بنا کر سامنے لائیں لیکن اس منصوبے میں دو کمزوریاں تھیں۔ پہلی یہ کہ گاندھی خود ہی قائد اعظم کو مسلمانوں کا رہنما سمجھ کر ان سے مذاکرات کرتے رہے، اور دوسری یہ کہ آزاد بطور ایک مذہبی رہنما کے اپنی پہچان رکھتے تھے جب کہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت انگریزوں کے مطابق بھی کسی برطانوی طرزِ تعلیم اور قانون کے ماہر کو ہی کرنا چاہیے تھی۔ جناح یوں بھی گاندھی سے قبل کانگریس کے مقبول ترین رہنما تھے اور قوی امکان تھا کہ اگر کانگریس کا طرزِ سیاست بالکل تبدیل نہ ہو جاتا تو جناح ہی اس کے مستقبل کے قائد ہوتے۔ لہٰذا ان کی سیاسی اہمیت کا گاندھی جی کو ادراک تھا۔
تاہم، نہرو نے آزاد کو ہندوستانی مسلمانوں کا لیڈر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہاں تک کہ 1940 سے لے کر 1946 تک آزاد کو کانگریس کا صدر بھی متواتر چھ سال تک برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسری جنگِ عظیم اور کانگریس کا عدم تعاون
دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو کانگریسی وزرا سے مشاورت کے بغیر ہی وائسرائے لنلتھگو نے ہندوستان کے برطانیہ کی جانب سے جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ نہرو نے کانگریس سے مشاورت کے بعد ہندوستان کے برطانیہ کا ساتھ دینے پر اتفاق کر لیا لیکن انہوں نے چند شرائط وائسرائے کے سامنے رکھیں جن میں اولین یہ تھی کہ برطانیہ جنگ ختم ہونے کے بعد ہندوستان کو آزادی دینے کا وعدہ کریں، اور دوسری مانگ یہ رکھی گئی کہ ہندوستانی فوج کا کمانڈر ان چیف کوئی برطانوی ہی رہے لیکن دفاعی پالیسی سازی میں ہندوستانیوں کو بھی فوراً شامل کیا جائے۔ لنلتھگو نے اس پر انکار کر دیا جس کے بعد کانگریس نے وزارتوں سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
ایک جانب مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور پاس کی جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے جانی گئی تو دوسری طرف نہرو سمیت کانگریس کے کلیدی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ نہرو اور گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریکوں کا اعلان کر دیا تھا۔
برطانوی سامراج کی کانگریس سے دوبارہ بڑھتی قربتیں
جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر کے جنگ میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا تو انگریزوں کو بھی کانگریس سے دوبارہ بات چیت کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اس سلسلے میں 1942 میں کرپس مشن کو ہندوستان بھیجا گیا۔ کرپس مشن کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر کانگریس نے برطانیہ سے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا تو گاندھی اور نہرو سمیت کانگریس کے کلیدی رہنماؤں کو پھر سے گرفتار کر لیا گیا اور یہ 1945 میں جا کر باہر آئے۔ اس دوران مسلم لیگ نے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں اور یہ 1945-46 کے انتخابات میں پاکستان کے مطالبے پر مسلم نشستوں پر پورے ہندوستان میں انتخابات جیتنے میں کامیاب رہی۔
کابینہ مشن پلان کی ناکامی
مسلم لیگ کی فتح کے بعد برطانیہ کی جانب سے کابینہ مشن پلان بھیجا گیا جو کہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی ایک آخری کوشش سمجھی جا سکتی ہے لیکن اس بار اس کو نہرو اور گاندھی نے ناکام بنایا جس کے بعد مسلم لیگ کے پاس پاکستان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ یہ واضح تھا کہ کانگریسی رہنما کسی صورت مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
آزادی کے بعد ہندوستان کی قیادت
1947 میں ہندوستان کی تقسیم اور آزادی بیک وقت ہوئی تو جہاں گاندھی اور جناح انتہائی نحیف اور ضعیف ہوتے جا رہے تھے، نہرو اب بھی قدرے جوان اور توانا تھے۔ انہوں نے 1948 میں گاندھی کے قتل کے بعد ہندوستان کو سیاسی اور انتظامی طور پر بہترین انداز میں لیڈ کیا اور ہندوستان کی قانون سازی، خارجہ پالیسی اور اور سیاسی و نظریاتی اساس کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ 1964 میں انتقال کے وقت تک وہ بھارت کو اقوامِ عالم میں ایک اہم مقام دلوانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کے خلاف سازشیں
یہ درست ہے کہ نہرو نے ایڈونا ماؤنٹ بیٹن اور ان سے بڑھ کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم پر اثر انداز ہونے کی کامیاب کوشش کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاکستان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک میں جواہر لعل نہرو کے ساتھ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دوستی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے ہونا ممکن نہیں کہ آزادی کے بعد بطور وزیر اعظم نہرو نے نوزائیدہ مملکت پاکستان کو معاشی اور دفاعی طور پر نقصانات پہنچانے کی شدید کوشش کی۔ لیکن یہ سب کچھ انہوں نے بطور بھارت کے وزیر اعظم کے کیا۔ وہ اپنے ملک کے لئے اپنے ایک دشمن کے خلاف یہ اقدامات کر رہے تھے جو قطعاً انصاف پر مبنی نہیں لیکن ان اقدامات کی بنیاد پر ان کی ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں کلیدی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخی شخصیات محض ہیرو یا ولن نہیں ہوتے۔ یہ بشری خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہوتے ہیں، اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تبھی کسی انسان کے تاریخ میں حقیقی قد کاٹھ کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔