اسلام کا پیغام برصغیر کے کونے کوچے تک پہنچانے کا سہرا ان بزرگ شخصیات کے سر جاتا ہے جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے اس وقت برصغیر کا رخ کیا جب مسلمان حملہ آوروں نے برصغیر کے علاقے فتح کرنے شروع کیے۔ مسلمان حملہ آوروں کے ہاتھ میں تلوار تھی اور پشت پر ہزاروں سپاہی۔ اس طاقت کے زور پہ انہوں نے برصغیر کے بیش تر علاقوں کو فتح کرکے یہاں اپنی عمل داریاں قائم کیں۔ اسلام اس خطے کے لیے ایک نیا مذہب تھا اور جس طرح سے مسلمان حملہ آور یہاں وارد ہوئے، مقامی لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کی شبیہ خاصی پرتشدد مذبب کے طور پر بنی۔ بعد میں اسی اسلام کا پیغام برصغیر کے دور دراز علاقوں تک پہنچا اور کم و بیش ہر علاقے کے لوگوں نے اس پیغام کا اثر قبول بھی کیا۔ اس پیغام کی اثر پذیری کا سہرا حملہ آوروں کے سروں پہ نہیں باندھا جاتا بلکہ اس اشاعت کے پیچھے ان مسلمان بزرگ ہستیوں، صوفیوں، درویشوں اور عالموں کا ہاتھ تھا جو مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے ہجرت کرکے نسبتاً نئی سرزمین پر آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔
یہ بزرگ مٹی ہوئی ہستیوں کے مالک تھے۔ ان کا رہن سہن نہایت عاجزانہ تھا۔ جہاں بھی انہیں جگہ ملتی بیٹھ جاتے اور پیار، محبت، امن، دوستی اور احترام کی باتیں شروع کر دیتے۔ مقامی لوگوں نے ان بزرگوں کی ذات میں ایک خاص قسم کی کشش محسوس کی اور دھیرے دھیرے ان کے پاس جمع ہوتے چلے گئے۔ یہ زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو برسوں سے نظر انداز ہوتے چلے آئے تھے۔ کبھی دھرم کی بنیاد پہ، کبھی ذات پات کی بنیاد پہ اور کبھی قوم قبیلے کی بنیاد پہ۔ ان دھتکارے ہوئے لوگوں نے جب اپنے لئے پیار، محبت، امن، دوستی، احترام کے الفاظ سنے تو انہیں یہ بے حد میٹھے لگے۔ ان کے کان ہزاروں سالوں سے یہ بول سننے کو بے تاب تھے۔ بس پھر کیا تھا، ان بزرگوں کے آشیانے آباد ہوتے چلے گئے اور یوں اسلام کے پیغام نے برصغیر کی زمین میں جڑیں پکڑنی شروع کر دیں۔
انہی ہستیوں میں سے ایک بزرگ سید عثمان مروندی بھی تھے جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا اور جنہیں دنیا لعل شہباز قلندر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ 1177ء میں مشرق وسطیٰ کے علاقے مروند میں پیدا ہوئے۔ یہ موجودہ افغانستان کے علاقے قندھار کا قریبی علاقہ تھا مگر آج کل آذربائیجان میں شامل ہے۔ ان کے آبا و اجداد عراق سے ہجرت کرکے افغانستان میں آباد ہوئے تھے۔ سید عثمان مروندی نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ جب ان کا میلان طریقت و معرفت کی طرف ہوا تو انہوں نے مروند سے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ انہوں نے حجاز، عراق، ایران، افغانستان، ہند، مکران، ملتان اور جونا گڑھ کے سفر کئے۔ بالآخر حضرت بو علی شاہ قلندر کے کہنے پر سندھ میں سکونت اختیار کی اور 1274ء میں اپنی وفات تک سیہون شریف ہی میں مقیم رہے۔
حضرت لعل شہباز قلندر ایک بہترین شاعر، الہٰیات دان اور فلسفی بھی تھے۔ آپ کو عربی، فارسی، پشتو، پنجابی، ترکی، سندھی، ہندی اور سنسکرت سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کا شجرہ نسب امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے۔
ہندو لعل شہباز قلندر کو جھولے لعل بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جھولے لال کی نسبت دریائے سندھ سے ہے اور ہندوؤں کی جانب سے انہیں دریاؤں کے بھگوان 'ورون' کا سندھ میں آنے والا اوتار قرار دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان جھولے لعل کو حضرت خواجہ خضر قرار دیتے ہیں، جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ دریاؤں اور سمندروں میں سفر کرنے والوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ مچھیرے بزرگ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ انہیں زندہ پیر، شیخ طاہر، خواجہ خضر، اُڈیرو لال، اور امر لال بھی کہا جاتا ہے۔
کالونیل دور کے مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق یہ بزرگ یہاں پر سترہویں صدی میں رہا کرتے تھے۔ ٹھٹھہ کے ظالم حکمران میرکھ شاہ نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کرنا چاہا تو ہندو دریائے سندھ کے کنارے گئے، اپواس کیا اور دریا سے مدد مانگی کہ وہ انہیں نجات دلائے۔ نتیجتاً دریا میں ایک صورت واضح ہوئی جس نے بتایا کہ نصرپور کے ایک عمر رسیدہ جوڑے کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جو ان کی مدد کرے گا۔ اس بچے کا نام اُڈیرو لال رکھا گیا اور انہیں 'جھولے لال' کا لقب بھی دیا گیا کیونکہ مانا جاتا ہے کہ ان کا جھولا خود بخود ہلتا تھا۔ یہ بچہ بڑا ہو کر ایک بہادر شخص بنا جس نے میرکھ شاہ سے بحث کی اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلایا جس پر اس نے ہندوؤں کو اپنی حکومت میں آزادی سے رہنے کی اجازت دے دی۔
ہندو لعل شہباز قلندر کو اپنے اسی دیوتا کا اوتار سمجھتے ہیں اور انہیں جھولے لعل کہتے ہیں۔ یہ دونوں شخصیات تاریخی طور پر تو ایک نہیں ہیں لیکن یکساں تصور کی حامل ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے ماننے والوں میں ہندو مسلمان سکھ عیسائی سبھی شامل ہیں۔
کتاب ‘Walking with Nanak’ کے مصنف ہارون خالد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’قلندر کا مزار شاید اس ملک میں اپنی نوعیت کی اکلوتی جگہ ہے جس کے دالان میں ہر عقیدہ دوسرے عقیدے میں یوں گھل جاتا ہے گویا 47 میں کوئی فساد ہی نہیں ہوا، گویا کسی ہندو نے سندھ سے کبھی ہجرت ہی نہیں کی، گویا پنجاب میں توہینِ مذہب کے شبہے میں کوئی مسیحی بستی کبھی جلی ہی نہیں۔ قلندر کا دالان اس دنیا کی پناہ گاہ ہے جو کبھی اس دالان سے باہر پھیلی ہوئی تھی اور رفتہ رفتہ معدوم ہوتی ہوئی اس دالان تک سمٹ آئی۔'
آپ کے تین اور دوست تھے؛ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری۔ آپ چاروں کو چہار یار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چہار یار سندھ اور ہند میں اسلام کی اشاعت کے سرخیل قرار دیے جاتے ہیں۔
لعل شہباز قلندر کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت باکمال شاعر تھے۔ ان کی ایک فارسی غزل اردو مفہوم کے ساتھ یہاں دی جا رہی ہے:
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم
تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے، میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلئے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لئے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔
اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
واہ وہ رندی کہ جس کیلئے میں سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔
ہر سال اسلامی مہینے شعبان کی 18 تاریخ کو سیہون شریف میں آپ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے اور فرقے کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کے عرس کے موقع پر تین جلوس نکالے جاتے ہیں۔ ایک کی قیادت مقامی سید گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک عقیدت مند کرتا ہے جبکہ دوسرے دو جلوس ہندوؤں کی قیادت میں نکلتے ہیں۔ مزار کا مجاور بھی ہندو ہے۔
مزار پر ہر روز بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو کر دھمال ڈالتے ہیں۔ ان میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور خواتین بھی۔ ملک میں عدم برداشت بڑھی تو اس دھمال کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں۔ دھمال کی ویڈیوز شیئر کرکے اسے شرک قرار دیا جانے لگا۔ اس پس منظر میں 16 فروری 2017 کو لعل شہباز قلندر کے مزار پر عین دھمال کے وقت ایک خودکش دھماکہ ہوا جس میں 83 لوگ شہید ہوگئے اور 250 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر اس طرح کے الفاظ میں بھی مذمت کی گئی:
'میں دھماکے کی مذمت کرتا ہوں مگر وہاں جو ہو رہا تھا وہ شرک ہے۔۔۔'
'وہ ناچتے کیوں ہیں؟'
'عورتیں سر عام کیوں ناچ رہی ہیں؟'
'یہ شرک ہے۔'
'یہ بدعت ہے۔'
دھمال لعل شہباز قلندر کے مزار کی پہچان ہے۔ یہاں جو دھمال سب سے زیادہ گائی جاتی ہے وہ ہے دما دم مست قلندر۔ دما دم مست قلندر تیرھویں صدی کی دھمال ہے جس میں لعل شہباز قلندر کی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ دھمال پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت کئی ملکوں میں معروف ہے اور اب تک اسے کئی فنکاروں نے گایا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سندھی نغمہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لعل شہباز قلندر اور سیہون شریف کی طرح ہر سندھی اور غیر سندھی کے دل میں گھر کر گیا ہے۔ اسے گانے والے نمایاں گلوکاروں میں نصرت فتح علی خان، میڈم نور جہاں، رونا لیلیٰ، عابدہ پروین شامل ہیں۔
نصرت فتح علی خان کی آواز میں دما دم مست قلندر:
رونا لیلیٰ کی آواز میں دما دم مست قلندر:
آشا بھوسلے، رونا لیلیٰ، عابدہ پروین اور عاطف اسلم کی آوازوں میں دما دم مست قلندر: