شعورِ خاص سے اُلجھے
شعورِ عام سے اُلجھے
ہمارا مسلک پرواز
کس کس دام سے اُلجھے
صبا جب زُلفِ جاناں کا
پیامِ مُشک بُو لائے
کبھی ہم کفر سے اُلجھے
کبھی اسلام سے اُلجھے
سچُو! ہر کیف و مستی کفر ہے اس بزمِ ہستی میں
یہ دورِ جام کب تک گردشِ ایّام سے اُلجھے
( سچل سرمست)
یہ شعر سندھ کے عظیم صوفی سچل سرمست کے سوا اور کون کہہ سکتا تھا؟ سچل سرمست ہفت زبان یا سات زبانوں کے شاعر تھے؛ سندھی، سرائیکی، اردو، پنجابی، ہندی، فارسی وغیرہ۔ انہیں سندھ کا منصور ثانی کہا جاتا ہے۔
منصور ہو یا سرمد ہو صنم یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر ہر ایک کا سر قربان ہوا
قربان قربان ہوا
تیرے حسن پہ میں حیران ہوا
سچل سرمست کا تصور مصور کی ہوئی تصویر ایک صوفی ہندو مندر میں آویزاں ہے (تصویر بشکریہ مشل بوئیون)
سچل سرمست کے مزار کے احاطے میں، جو خیرپور میرس ضلع میں چھوٹے قصبے درازا میں واقع ہے، ان کے مریدوں کی قبریں ہیں جن میں مسلم مریدوں کے ساتھ ہندو مرید بھی دفن ہیں۔ ان کی قبروں پر چادریں ہیں جن پر قرانی آیات کندہ ہیں۔ سچل سرمست کے ہندو مرید ہوں کہ صوفی شاہ عنایت کے، وہ زیادہ تر اگنی سنسکار کے بجائے جھوک اور درازا میں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ بھی اپنے مرشد کے قدموں کی طرف۔
سچل سرمست کی درگاہ کے احاطے میں ان کے ہندو صوفی مریدوں کی قبریں (تصویر بشکریہ ایم مسرور سومرو)
سچل سرمست پر کفر کے فتوے بھی ملاؤں نے لگائے۔ وہ قریب قریب قتل کیے جانے والے تھے۔ انہوں نے کہا تھا؛
مذہبوں نے ملک میں لوگ بھلائے ہیں
کوئی جھک کر نمازیں پڑھ رہے ہیں
تو کنوں نے مندر بسائے ہیں
شیخوں، پنڈتوں، بزرگوں نے
لوگ بے حد بھٹکائے ہیں
قریب نہیں آئے عقل والے عشق کے
سچل سرمست نے کہا تھا؛
آهيان پاڻ الله عشق ڪنون ٿو عبد سڏاوان
کہ 'میں خود اللہ ہوں لیکن عشق کے مارے بندہ کہلاتا ہوں'
پھر کہا؛
اوہو کم کریجے جہیں وچ اللہ آپ بنیجے
کہ 'ایسا کام کیا جائے جس میں خود اللہ بنا جائے'
اللہ بننا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اکتوبر 1991 میں حیدرآباد سندھ میں پولیس نے صوفی جانن چن کے آستانے پر چھاپا مارا۔ صوفی جانن چن تو ان کے ہاتھ نہیں آیا لیکن صوفی جانن چن کے مریدوں، طالبوں کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔ آستانے سے پولیس نے موسیقی کے ساز یکتارے، گھنگھرو، ڈفلی، ہارمونیم اور طبلے گواہی یا کیس پراپرٹی کے طور پر ضبط کر لیے اور جانن چن اور اس کے فقیروں کے خلاف بلاسفیمی کا کیس داخل کیا۔ فقیروں پر ٹارچر کیا گیا، زبردستی یہ اعترافی بیان لینے کو کہ کہو تم خدا ہو۔ فقیروں نے کہا کہ 'ہم کیوں کہیں کہ ہم خدا ہیں؟ نہیں۔ ہم تو اس کے بندے ہیں، تمہاری طرح۔ ہم تو اس کے حسنِ ذات کے سپاہی ہیں'۔
پولیس نے پریس کو فون کیے کہ اہم پریس کانفرنس ہے ہماری، تھانے پر آئیں۔ آئیں ہم نے سلمان رشدی سے بھی بڑا کیس پکڑا ہے۔ ان دنوں آپ کو یاد ہو گا کہ سلمان رشدی کی کتاب پر ہنگامے چل رہے تھے۔
صوفی جانن چن سندھ میں بیسویں صدی کے آخر کا بہت بڑا جید صوفی ہو گزرا ہے۔ اس کے فالوورز (اب فالوورز سوشل میڈیا کے ہی مانے جاتے ہیں) میں کسان، کسانوں کے حقوق کے لیڈر، مزدور، فلسفے کے پروفیسر، کمپیوٹر سائنٹسٹ اور انگریزی ادب کے طالب علم بھی شامل تھے۔ اس کا ایک شعر ہے؛
دم عشق جو ڌاڙو هنيم اغوا ڪيم الله آهي
کہ 'میں نے دم اسم (اسم اعظم) کا ڈاکہ ڈالا، جسے میں نے اغوا کیا وہ اللہ ہے'
صوفی جانن چن جن کا کچھ برس قبل انتقال ہوا ہے، جسے صوفی 'پیالہ کر جانا' کہتے ہیں، جہانیاں کا طالب تھا۔ شاہ جہانیاں جہاں گرد صوفی جنہوں نے اپنا مسکن و مرکز اچ شریف کو بنایا۔ وہ سندھ سے کشمیر تلک آئے۔ سری نگر کے مقتول صحافی شجاعت بخاری بھی جہانیہ نسلی سلسلے سے تھے۔
سندھ صوفیوں، سنتوں، سادھوؤں، بدھ مت اور جین مت والوں کا مرکز تھا۔ صوفیوں کے سرتاج بایزید بسطامی کا استاد بھی سندھی تھا۔ انتہائی برگزیدہ صوفی میاں میر جو لاہور میں دفن ہیں، سندھ کے پہلے شاعر قاضی قاضن کے نواسے تھے۔ میاں میر وہ ہستی ہے جب امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کا سنگ بنیاد ڈالا جا رہا تھا تو وہ اس تقریب میں خاص طور پر مدعو ہوئے تھے۔ لاہور میں سندھ کے دو درویش دفن ہیں؛ ایک میاں میر اور دوسری فہمیدہ ریاض۔
اسی طرح صوفی شاہ عنایت کے جھوک میں مزار پر بھی اپنے مرشد کے پیچھے مرید خواہ کروڑ پتی ہندو ہوں کہ مسلمان زمیندار، کسان ہوں کہ دلت؛ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ شاہ عنایت کے ہندو مرید اپنے مرشد کے جھوک میں خود کو دفنواتے ہیں۔ شاہ عنایت صوفی، جنہیں سندھ کے صوفیوں کا سرتاج کہا جاتا ہے، انہیں سید سبط حسن نے اپنی کتاب 'نویدِ فکر' میں سندھ کا پہلا سوشلسٹ صوفی لکھا ہے۔ انہیں صوفی رہنے دیتے تب بھی ٹھیک تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فرانس میں پیرس کمیون سے بھی بہت بہت پہلے شاہ عنایت نے سندھ میں کسانوں کو ایک کمیون کی صورت میں منظم کیا۔ 'جو بوئے سو کھائے' کا نعرہ لگایا۔ جاگیرداروں کو للکارا۔ مقامی جاگیرداروں، سندھ کے کہلوڑا حکمرانوں اور دہلی میں مغل شہزادے فرخ سیر کی ملی بھگت سے شاہ عنایت اور ان کے سینکڑوں مریدوں کو قتل کیا گیا۔ جھوک شریف کے گنج شہید میں ان کے سینکڑوں، ہندو چاہے مسلمان، مریدوں کی قبریں ہیں۔
شاہ عنایت نے اپنے قتل سے قبل یہ شعر پڑھا تھا؛
سر در قدم یار فدا شد چہ بجا شد
ایں بارگراں بود ادا شد چہ بجا شد
کہ 'میرا سر یار (محبوب) کے قدموں پر فدا ہو گیا کیا ہی اچھا ہوا، یہ بیش بہا بوجھ جو میرے سر پہ تھا ادا ہو گیا، بہت ہی اچھا ہو گیا'
سندھ میں درگاہوں اور صوفیوں سے متعلق قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول 'سیتاہرن' کی مرکزی کردار سیتا میر چندانی سے ناول میں کہلوایا؛
'وہاں (سندھ میں) راجہ بھرتری لعل شہباز بنے، پیر پٹھو پیر سلطان، زندہ پیر خواجہ خضر، اڈیرو لال شیخ طاہر بن گئے، لالہ جسراج منگھو پیر بنے'۔
اور سیوستان سیوھن شو آستان تھا، کتنے سکندر اور دارا آئے گئے لیکن سیہون اب بھی وہیں ہے۔
سخی شہباز قلندر ادھر بھی ایک نظر
نشے عجیب تری آستاں سے ملتے ہیں
(محمود کنور)
یہ بھی پڑھیں؛ لعل شہباز قلندر ہندوؤں کے جھولے لعل کیوں کہلاتے ہیں؟
سندھ سے دنیائے عالم میں ایک بڑے صوفی اور اتنے بڑے شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے ایسے تکیوں اور درگاہوں کیلئے کہا تھا؛
ساري رات سبحان جاڳي جن ياد ڪيو
انجي عبدالطيف چئي مٽي لڌو مان
ڪوڙين ڪن سلام
اچيو اسڻ انهن جي
آج بھی سکھر کے پاس 3 سال قبل محرم کے عاشور والے دن عزاداران کو سبیل پلانے والی چھوٹی بچی پریا کماری تھی جو اغواء ہو کر اب تک غائب ہے۔
گلزار نے کہا تھا؛ 'موہن جودڑو سے لے کر پونا تک ایک سانس ادھار دے دو'۔ میں کہتا ہوں کہ موہن جودڑو سے لے کر پونا تک رقص درویشاں جاری ہے اور دلوں پر اصل حکمرانی اسی کی ہے۔
ساجن سائیں سئر کرن کو بن آیا انسان
کہین پر ہندو، ٭گبر، یہودی، کہیں پر مسلمان
(صوفی بیدل)
*گبر زرتشتی کو کہتے ہیں۔
رام اور رحیم دونوں اصل میں ایک تھے، ایک ہیں۔ لیکن رام اور رحیم کا جو جھگڑا اٹھا جو ملّا پنڈت نے کھڑا کیا، اسے ختم کرنے کو کبیر سے لے کر گرونانک تک اور گرونانک سے لے کر اوشو تک سب اسی چکر میں آئے۔ اوشو نے کہا ہے کہ 'گرونانک پورے ہندوستان میں وہ واحد پرچارک تھا جو ہندوستان سے باہر دور دور تک گیا اور اس کا تمام پیغام شاعری میں ہے'۔ وہ شکارپور سندھ سے لے کر مکے تک گیا۔ کعبے میں جا کر سو گیا۔ وہ آج کے عراق تک گیا۔ بغداد میں گرونانک کے تکیے ہیں اور وہاں انہیں 'النبی الہند' کہا جاتا ہے، یعنی 'ہند کا نبی'۔
سندھ کا ہندو ہندومت کرتا ہے، سکھ پنتھی بھی ہے تو صوفی بھی۔ کیہ جانا میں کون؟ سندھ کے مندر میں بھگوت گیتا کے ساتھ گرنتھ صاحب بھی پڑھا جاتا ہے۔
پنڈت بولے روٹ اوٹ لنگوٹ
بھکشو بولے دھیان گیان نروان
تو یہ جو رام اور رحیم کا جھگڑا تھا اسی نے آگے چل کر دو قومی نظریے کو جنم دیا جو آخرکار 1971 میں خلیج بنگال میں ڈوب گیا۔
دو قومی نظریے کے نتیجے میں ناصرف ملک بٹے بلکہ درگاہیں، مڑھیاں، گردوارے، مندر، مسجدیں، سینیگاگ اور امام بارگاہیں بھی بٹیں اور کئی ہندوؤں، سکھوں اور یہودیوں کو سندھ اور نئے پاکستان سے اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ وگرنہ وہ بھی قلندر شہباز کی مہندی برآمد کیا کرتے تھے۔
اگر ہندوستان کا تخت اورنگزیب کی جگہ دارا شکوہ کو ملتا تو برصغیر کی تاریخ اور معاشرت مختلف ہوتی۔ وہ دارا شکوہ جس کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی پر اللہ کی جگہ ایشور لکھا ہوا تھا۔
سندھی ادیب موہن کلپنا نے لکھا ہے کہ کتنا اچھا ہوتا نتھو رام گوڈسے کی گولی لگتے وقت گاندھی ہائے رام کے بجائے ہائے اللہ کہتے۔
ایسا کوئی جہان ملے ہونٹوں پہ مسکان ملے
کاش ملے مندر میں اللہ مسجد میں بھگوان ملے
شیخ ایاز نے لکھا؛
مُلّا اپنے عمامے میں سوچے
ڈاڑھی نوچے
سرمد کیا ہے سوچے؟
چاند قطب مینار کے اوپر
دلی میں دستاریں سوچیں
سرمد کیا ہے سوچے؟
پگ پگ خونی خنجر سوچے
حلق حلق تلواریں سوچیں
پر دارا کی تقدیر نہ سوچے
یوں تو سب سب درباریں سوچیں
ملا اپنے عمامے میں سوچے
ڈاڑھی نوچے
سرمد کیا ہے سوچے؟