ہم ڈریں بھاگیں چھپیں نظر انداز کریں یا بھلانے کی کوشش کریں لیکن سچ اپنا آپ ظاہر کر کے رہتا ہے۔ اور اگر سچ تاریخ سے متعلقہ ہو تو کسی کے پاس اس کو جھٹلانے کی حیثیت نہیں ہوتی۔ قوم بھی وہی عظیم بنتی ہے جو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے بہتر مستقبل کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔
ہر انسان کا حق ہے کہ روزگار کے لئے کوششیں کرے چاہے اس کے لیے اسے ہجرت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ جیسا کہ آج بھی بہت سے پاکستانی مغربی ممالک کا سفر اسی غرض سے کرتے ہیں۔اگر اس کی وجہ صرف ان ممالک کا ترقی یافتہ ہونا ہے نہیں تو ہم افغانستان کیوں نہیں جاتے۔ اسی طرح ایک وقت ایسا تھا کہ پاکستان بھی کسی قوم کی نظر میں ایک ایسی سرزمین تھا، جس کا مستقبل ان کی نظر میں روشن اور بلند تھا، کاش کے ان کی اور ہماری سوچ سچ ہو جاتی لیکن آج اگر یہ تصویر اظہر جعفری نے نہ بنائی ہوتی تو مجھے میرے ملک کی ایسی عظمت کا کبھی پتا نا چل سکتا۔
لیکن یہ آگہی ایک ایسے سوال کو دوبارہ سامنے لے آئی جو کئی دہائیوں سے زبان زدعام ہے کہ ہم نے کیا غلطی کی۔ سرحدی لکیروں کے پار والے کیسے آگے نکل گئے۔
ہاں وہی بنگلہ دیش جس کے کچھ نوجوان 1990 کی اس تصویر میں حوالات میں بند ہیں۔ روشن مستقبل کے خواب لئے براستہ انڈیا پاکستان میں غیرقانونی طریقہ سے داخل ہونے پر زیر حراست نظر آ رہے ہیں۔ ایسی کیا وجوہات بنیں کے کہ صرف 32 سال میں ایسا وقت بدلا کہ ٹکے ٹکے کی باتیں کرنے والوں نے آج دیکھ لیا کہ بنگلہ دیشی ایک ٹکا پاکستانی دو روپے کا ہو گیا۔ وہاں سے تو اب کوئی ہمارے ملک مستقل رہائش کے لئے نہیں آتا تاہم یہاں سے بنگلہ دیش جا کر سیٹل ہونا اور کاروبار کرنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔