عام انتخابات 2024ء پر گفتگو کے لئے تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال، پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل میر اور ن لیگی رہنما عطا تارڑ فیسٹول کا حصہ بنے۔ وفاقی وزیر فواد حسن فواد اور مفتاح اسماعیل دوسرے روز شریک ہوئے جبکہ پہلے روز سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اوپننگ سیشن میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی ،افراسیاب خٹک حامد میر بھی مختلف موضوعات پر پینل گفتگو کا حصہ بنے۔ 2 روزہ افکار تازہ فیسٹیول میں 47 مخلتف موضوعات پر مختلف پینلز نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
پاکستان میں انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟ نتائج کی کیا توقع ہے؟ حکومت کیا ہو گی؟ کے موضوع پر نجم سیٹھی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کتنی نشستیں ملیں گی اس کی جا سکتی ہے جبکہ ن لیگ کی گنتی کرنا مشکل ہے، راولپنڈی میں بیٹھے لوگ سوچ رہے ہیں کہ چالیس سیٹوں کا کیا کرنا ہے، تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے جیتنے والے لوگ کسی بھی جماعت میں شمولیت اختیار نہ کریں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ استحکام پاکستان پارٹی میں چلے جائیں اور ڈرائیونگ سیٹ پر علیم خان ہوں اس لئے آئی پی پی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اُن کی ہو گی، اِس کے بعد سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نواز ہو گا یا شہباز؟ ن لیگ کو سوچنا چاہیے کہ طاقتور حلقوں کی وجہ سے وہ حکومت میں آ رہی ہے۔ طاقتور حلقوں کی بھی کوئی پسند نا پسند ہو گی، نجم سیٹھی نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ہو سکتا ہے کہ پنجاب علیم خان کے پاس ہو اسلام آباد دونوں بھائیوں میں سے ایک آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک موجودہ اسٹیبلشمنٹ ہے عمران خان جیل میں رہیں گے۔ ٹوپی والوں کی خواہش ہے کہ عمران جلد باہر نہ آئیں۔
نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنکی کہتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے چیلنجز انتہائی سیاسی اور معاشی پولرائیزیشن کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور معاشی مسائل بھی شامل ہیں، نئی بننے والی حکومت کو مشرق اور مغرب سے سے کیسے تعلقات ہونگے یہ بھی چیلنج ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لگتایوں ہے کہ اگر ن لیگ حکومت بناتی ہے تو نواز کے علاوہ کوئی اور امیدوار نہیں ہو گا۔ حکومت سازی میں آزاد امیدوار کا کردار اہم ہو گا، جو گزشتہ سال نو مئی کو ہوا اُس کے ریاست پر گہرے اثرات ہیں، لگتا یوں کہ وہ عمران والا تجربہ دوبارہ دہرایا جائے گا۔
تجزیہ نگار فہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں معاملات ایک سمت میں چل رہے کہ اچانک ایک واقعہ ہوتا ہے اور معاملات دوسری طرف چل پڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک توقع ہے کہ ن لیگ مخلوط حکومت کی سربراہی کرے۔ دوسری توقع ہے کہ ن لیگ بڑی جماعت تو بن جائے لیکن لیڈ نہ کر سکے، بلے کے نشان نہ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ فہد حسین کی رائے کے مطابق ن لیک کی خواہش ہے کہ وہ پی پی پی کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان اور جنوبی پنجاب پر توجہ مرکوز کر رہی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے بعد دو بڑے دفتر وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب میں کوئی شریف فیملی کے بغیر بھی کوئی آ سکتا ہے؟ اور یہ بھی اہم ہے کہ آئندہ حکومت کا وزیرخزانہ کون ہو گا۔ حزب اختلاف کون ہو گا، جبکہ اہم سوال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا کردار مزید کتنا بڑھے گا اور دوسرا سوال ہے کہ عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور انکے وعدوں کے عنوان پر لیگی رہنما عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے حوالے سے بہت پہلے کے کیس کر رکھے تھے کہ انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں کروائے اور سپریم کورٹ نے رولز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ دیا۔ انہوں نے دوران مباحثہ زور دیا کہ پی ٹی آئی سے غلطی ہوئی؟ انہیں معلوم نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن میں کیس چل رہایے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء فیصل میر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے ائوٹ کر دینا خطرناک ہے، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کہ چکے ہیں پی ٹی آئی کو الیکشن مہم حصہ لینے دیا جانا چاہئے اور اس ساری صورت حال میں قصور پی ٹی آئی کا ہے۔ فیصل میر نے کہا کہ نون لیگ کا لاہور میں کوئی بھی امیدوار ارب پتی سے کم نہیں اور عام آدمی کی نون لیگ میں کوئی نمائندگی نہیں۔
الیکشن میں مقبولیت کے عنوان پر سیاست دان اور دانشور افراسیاب خٹک نے کہا کہ 8 فروری کو انتخابات غیر یقینی ہے، ملک میں انتخابات صرف 1970ء میں ہوئے۔ لگتا نہیں ملک میں عام انتخابات شفاف ہونگے، رات کا فیصلہ بھی سیاسی ہے جیسے قانونی شکل دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فضل الرحمن کی جماعت پر صرف باجوڑ میں حملہ ہورہاہے۔ ملک میں لیول پلیئنگ فیلڈ کسی جماعت کو حاصل نہیں ہے۔ ملک میں جب تک پولیٹیکل انجینئرنگ ختم نہیں ہوتی انتخابات شفاف نہیں ہونگے۔
مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ 8 فروری کو الیکشن ڈے پر لائنیں لگیں گی اور 8 فروری کو انتخابات کروانے میں ہی ملک کی بھلائی ہے۔ 50 کی دہائی سے اب تک پاکستان میں انتخابات ہو یا نہ حکومت ہمیشہ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں صرف اشرافیہ کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل ہے جبکہ صرف غریب عوام کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں۔ کل رات کے فیصلے پر قانونی ماہرین رائے دیں، میرے خیال میں کل رات کا فیصلہ درست ہے کیونکہ اگر کوئی جماعت اپنے ارکان کو انتخابات کا حق نہیں دیتی تو کل کوئی اور بھی ایسا کرے گی۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی شکایت ساری جماعتوں نے کی ہے۔ نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے معاشی بقا کا چیلنج سب سے بڑا ہے۔ بلوچستان کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ چند لوگ کہتے ہیں انتخابات 3 ماہ تاخیر سے ہوں اور کل رات سے جو قاضی صاحب کا فیصلہ ہوا، الیکشن تاخیر سے کروانے والوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کر لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قاضی فائز عیسی کو پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس سننا نہیں چاہیئے تھا جبکہ لیول پلیئنگ فیلڈ صرف نون لیگ کو حاصل ہے۔